وادی میں سگریٹ یا تمباکو نوشی ہر گزرتے دن ایک سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ صوبائی انتظامیہ نے عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے اور نافرمانی کرنے کی صورت میں جرمانہ عائد کرنے کا انتباہ بھی دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے عوامی مقامات پر سگریٹ یا تمباکو نوشی پر پابندی پہلی دفعہ عائد نہیں کی جارہی ہے بلکہ جموں کشمیر میں کئی برس قبل عوامی مقامات پر سگریٹ یا تمباکو نوشی ممنوع قرار دی گئی ہے اور اس کیلئے باضابطہ سزا کا طریقہ متعین کیا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کے ارد گرد بھی سگریٹ یا تمباکو نوشی کی مصنوعات کی خرید و فروخت پر پابندی پہلے سے عائد ہے۔ اب جبکہ ان پابندیوں کا دوبارہ سے اعادہ کیا گیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ جموں کشمیر خاص کر کشمیر میں جس طرح سگریٹ نوشی عام ہے وہ واقعی طور پریشان کن ہے اور اب جس طرح منشیات کا استعمال ایک اور بحران کی صورت میں اُبھر کر سامنے آیا ہے اُ س نے ذی حس طبقوں کی نیندیں اجاڑ دی ہیں۔ سگریٹ یا تمباکو نوشی کے نتیجہ میں کشمیر میں سرطان کے معاملات سامنے آنے کے جو اعداد و شمار ہر سال ظاہر کئے جاتے ہیں وہ تشویش ناک ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض عوامی مقامات پر تمباکو یا سگریٹ نوشی ممنوع قرار دینے سے ہی مسئلہ حل ہوگا؟ نہیں ، ایسا بالکل بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے اعلانات سے زمینی صورتحال بدل سکتی ہے بلکہ اس کیلئے معاشرے کے رویہ میں ہی تبدیلی ناگزیر ہے۔ آپ کتنا ہی سزائیں کیوں نہ دیں جب تک معاشرہ از خود تبدیلی کیلئے تیار نہیں ہوگاتبدیلی کا تصور کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ایسے میں لازمی ہے کہ ہم معاشرے کو تبدیلی کیلئے تیار کریں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ تبدیل کیسے ہوگا؟ یہ بھی ناممکن نہیں بلکہ عین ممکن ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی میں کشمیر میں عوامی مقامات بشمول مسافر گاڑیوں، ہوٹلوں یہاںتک کہ تعلیمی اداروں میں بھی سگریٹ نوشی کو ناجائز نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن پھر جب پابندی کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی اس کے نفاذ کیلئے عوامی سطح پر بیداری مہم چلائی گء تو لوگ ازخود اس ناسور سے باز آگئے۔سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی کی شرحوں کو کم کرنا ور عوامی مقامات پر اس کو بالکل ختم کرنا بالکل ممکن ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم صرف زبانی جمع خرچ سے کام نہ لیں بلکہ عملی سطح پر ٹھوس اقدامات بھی اُٹھائیں۔ اس کیلئے ہمیں سماج کے جملہ طبقوں کو اس مہم میں شامل کرنا پڑے گا وہیں مذہبی پیشوائوں اور ڈاکٹروں و ماہرین تعلیم اور قانون نافذ کرنے والوں کا اس میں کلیدی رول بنتا ہے۔ اگر ائمہ اور علما یہ تہیہ کرلیں کہ ہمیں سماج کو بدل کر رکھ دینا ہے تو یہ کام انتہائی آسان اور سادہ ہے۔اس سلسلے میں جہاں علماء وعظ و نصیحت کے ذریعہ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے وہیں سماج کے ہر فرد کو آگے آنے کی ضرورت ہے بالخصوص والدین پر اس معاملے میں سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کے عادات و خصائل پر کڑی نگاہ رکھیں، انہیں احتساب کے دائرہ میں جکڑ کر ایک ذمہ داری شہری بنانے کی پہل کرے تاکہ بچپن سے ہی قوم کی نئی نسل کی ذہن سازی انجام دی جائے۔ انفرادی سطح پر کوششیں محدود اثر رکھتی ہیں لہٰذا کسی بھی چیلنج کا بھروقت اور مؤثر مقابلہ کرنے کیلئے اجتماعی کوشش انتہائی لازمی ہے۔