وادی کے مختلف حصوں سے لگاتار پینے کے پانی کی نایابی کی شکایتیں موصول ہورہی ہیں جس کی وجہ سے شہری و دیہی علاقوں کی ایک وسیع آبادی سخت مشکلات سے دوچار ہے۔شدت کی گرمی کے ان دنوں توقع کی جارہی تھی کہ محکمہ جل شکتی وادی بھر کے صارفین کو اس بار مایوس نہیں کریگی تاہم زمینی سطح پر ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ شمال و جنوب کیساتھ ساتھ وسطی کشمیر کے ایسے متعدد علاقوں میں لوگوں کو پانی کی نایابی کا مسئلہ درپیش ہے جس پر انہوں نے متعلقہ حکام کی توجہ معاملے کی جانب مبذول کرانے کی خاطر احتجاج بھی کئے اور سرکاری دفاتر کے متعدد چکر بھی کاٹے تاہم اس سب کے باوجود صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔پانی کی عدم دستیابی سے جوجھ رہی آبادی کیلئے اگر چہ محکمہ جل شکتی کی جانب سے بعض اوقات پانی کو ٹینکروں کے ذریعے علاقوں کو سپلائی کیا جاتا ہے تاہم وسیع آبادی کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات محض سطحی معلوم ہورہے ہیں جن سے عوام کی ضروریات پوری ہونا محض ایک دکھاوا لگ رہا ہے۔ایسے علاقوں میں محکمہ جل شکتی سابق پی ایچ ای کی جانب سے یہاں پانی کی پائپیں بچھانے کا عمل بھی ابھی باقی ہے۔ پانی سے متعلق لوگوں کو درپیش مشکلات کی وجہ سے وادی کے ایک وسیع حصے میں حالات نے سنگین رُخ اختیار کیا ہوا ہے۔ موسم سرما کے کٹھن ایام کے دوران بھی شہری و دیہی علاقوں میں پانی کی سپلائی کئی روز تک معطل رہی کیوں کہ پانی سپلائی کرنے والے آبی ذخائر اور پائپیں ہفتوں تک زیر برف رہنے کے نتیجے میں منجمد ہوچکے تھے جس کے نتیجے میں آبادی کا وسیع حصہ پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگا۔یہاں موصولہ اطلاعات کے مطابق پانی کی سپلائی فراہم کرنے والی ٹینکی بجلی کی عدم دستیابی کے موقعے پر ٹھپ ہوکر رہ جاتی ہے۔لوگوں نے الزام لگایا کہ لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ سال کے دوران بیک ٹو ولیج پروگرام کے دوران متعدد علاقوں کے لوگوں نے اعلیٰ حکام کو اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ علاقے میں پانی کی سپلائی کو بغیر خلل جاری رکھنے کیلئے جنریٹرز فراہم کریں تاہم کئی ماہ گزرگئے لیکن مقامی آبادی کے مطالبے پر کوئی کان نہیں دھرا گیا۔ اسی طرح جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں بھی صورتحال بد سے بدتر بنی ہوئی ہے جہاں لوگ پانی کی بوند کو ترس رہے ہیں۔ یہاں مقامی لوگوں کے مطابق چوبیس گھنٹوں کے دوران محض آدھ گھنٹہ کیلئے پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے جو مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔شمال و جنوب میں لوگوں کا الزام ہے کہ محکمہ جل شکتی کا طریق کار روایتی اصولوں پر مبنی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف آبادی کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے بلکہ یہاں مقامی خواتین کو پانی کے حصول کیلئے کئی کئی میل پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جو کہ انتہائی ناشائستہ لگ رہا ہے۔اس طرح کے معاملات محدود نہیں بلکہ غیر محدود ہے اور وادی کے چپے چپے سے اس طرح کی شکایات موصول ہوتی رہتی ہے تاہم انتظامیہ کو بغیر لیت و لعل کے عوامی مطالبات پر توجہ مرکوز کرکے ان کے ازالہ کی خاطر ٹھوس اقدامات اُٹھانے چاہیے تاکہ سرد وگرم حالات سے جوجھ رہی آبادی کو راحت کی سانس نصیب ہو۔