تحریر:-ہیما راول
ہر بچے کو اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے مکمل مواقع ملنے کا حق ہے۔ لیکن معاشرے میں صنفی عدم مساوات کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ صنفی عدم مساوات ہندوستان میں ہر جگہ لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان نظر آتی ہے۔گھرکے اندرسے لیکر باہر تک۔ پھر چاہے گھر کے کام ہوں یا گھر کی عورتوں کو گھر سے باہر بھیجنا۔ اس تشدد کی شکل ہر جگہ نظر آتی ہے۔ اس کا سب سے برا اثر نوعمر لڑکیوں کی زندگی پر پڑتا ہے۔ معاشرے کی پابندیاں اور خواتین کو کمزور سمجھنے کی ذہنیت بعض اوقات نوعمر لڑکیوں کی صلاحیتوں اور ان کی شخصیت کو متاثر کرتی ہے۔ کبھی انہیں جسمانی اور کبھی ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی یہ تشدد سماج کے وقار کے نام پر کیا جاتا ہے تو کبھی روایت کے نام پر۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ”لڑکی ہو، دائرے میں رہو“ کے نام پر اسے ہراساں کرکے اس کی صلاحیت کو کچل دیا جاتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ شہروں میں صنفی تشدد نہیں ہوتا ہے، لیکن یہ ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں بڑے پیمانے پر نظر آتا ہے۔ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گڑوڈ بلاک کا گنی گاؤں اس کی ایک مثال ہے، جہاں نوعمر لڑکیوں اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک اور صنفی تشدد معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔ گاؤں کی ایک نوجوان لڑکی جانکی کہتی ہے کہ”گھر کے کام کاج میں بھی بہت زیادہ تشدد ہوتا ہے۔ جس کا تعلق صنفی عدم مساوات سے ہے۔ مثال کے طور پر جب گھر کے کام ہوتے ہیں تو گھر والے فیصلہ کرتے ہیں کہ اگر یہ کام لڑکی کا ہے تو صرف لڑکی کرے گی اور اگر یہ کام لڑکے کا ہے تو لڑکا ہی کرے گا۔ جبکہ یہ کام ایک لڑکی بھی کر سکتی ہے۔“وہ کہتی ہیں کہ آج کے معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ بیٹیوں کو برابر کا درجہ دیا جا رہا ہے لیکن پھر بھی ہمارے دیہی علاقوں، ہمارے گردونواح میں، ہمارے اپنے خاندانوں میں ہر لڑکی کو صنفی تشدد کا سامنا ہے۔ صبح اسکول جانے سے پہلے اور آنے کے بعد گھر کے سارے کام ہم لڑکیوں کو ہی کرنے پڑتے ہیں۔جبکہ ہمارے بھائی کو کبھی کسی کام کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ گھر آکر ہم کتنے ہی تھکے ہوئے ہوں، ہمیں کام کرنا ہی پڑتا ہے۔ گھر کے مرد کبھی گھر کے کام میں مدد نہیں کرتے۔
گاؤں کی ایک خاتون شوبھا دیوی جو پدرانہ نظام کا شکار ہیں، کہتی ہیں کہ ”معاشرہ خواتین کو نہ صرف مردوں کی غلام سمجھتا ہے بلکہ خواتین کی آزادی پر بھی پابندیاں لگاتا ہے۔ انہیں مردوں کے نیچے رہنے کو مجبور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم خواتین میں عزت نفس کا فقدان ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گاؤں میں صنفی تشدد کب رکے گا؟ مرد اور عورت کو یکساں احترام کب ملے گا؟ معاشرے کی یہ سوچ کب بدلے گی؟“دیگر خاتون کملا دیوی کہتی ہیں کہ میری صرف بیٹیاں ہیں۔ میرے شوہر نے میری ایک بیٹی کو بیچ دیا اور میں اس کے خلاف آواز بھی بلندنہیں سکی تھی کیونکہ ہمارے گھر کے تمام فیصلے کرنے کا حق صرف مردوں کو ہے۔ بیٹیوں کو جنم دینا بھی ہمارے لیے بہت بڑی لعنت ہے۔
دوسری جانب رجنی کا کہنا ہے کہ جب سے میری شادی ہوئی ہے آج تک میں مزدوری کر کے اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہوں کیونکہ میرا شوہر دن رات شراب میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے باوجود وہ مجھے مارتا ہے۔ جس کا براہ راست اثر میری ذہنی اور جسمانی حالت پر پڑتا ہے۔ میں گھر کا کام بھی کرتی ہوں اور باہر جا کر لوگوں کے گھروں میں مزدوری بھی کرتی ہوں۔ اس کے باوجود، میں جانتی ہوں کہ مجھے کیاکیا سننے کو ملتا ہے، جبکہ میں عزت کے ساتھ کام کرتی ہوں اور اپنا اور اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہوں۔
اس حوالے سے سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ آج بھی دیہی معاشرے میں خواتین کے ساتھ بہت زیادہ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔”تم ایک عورت ہو، لڑکی ہو، اپنی حدود میں رہو“ کے الفاظ خواتین اور نوعمر لڑکیوں پر جنسی تشدد ہے، جو ان میں ذہنی تناؤ پیدا کرتا ہے۔ اگر عورت نوکری کرتی ہے تو پہلے اسے گھر کے سارے کام کرنے پڑتے ہیں پھر اپنے کام پر جانا پڑتا ہے اور جب وہ وہاں سے آتی ہے تو گھر آکر بھی اسے اپنے سارے کام کرنے پڑتے ہیں۔ یہ ایک طرح سے اس کے خلاف سب سے بڑا تشدد بھی ہے کیونکہ معاشرہ کہتا ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔ اس کا کام گھر کی دیکھ بھال کرنا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہمارے علاقوں میں بہت سی ایسی خواتین ہیں جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود صنفی تشدد کو برداشت کر رہی ہیں۔گاؤں کی گرام پردھان ہیما دیوی بھی گنی گاؤں میں صنفی تشدد کی بات کو قبول کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ مجھے گاؤں کا گرام پردھان بنے ہوئے 3 سال ہو گئے ہیں، لیکن میں کبھی کسی میٹنگ میں نہیں جاتی اور نہ ہی مجھے کبھی کسی میٹنگ میں بلایا جاتا ہے۔ میں گرام پردھان ضرور ہوں، لیکن میرا کام میرے شوہر سنبھالتے ہیں۔ گاؤں سے متعلق کسی کام میں بھی میری رائے نہیں لی جاتی۔ معاشرے کی تنگ نظری کی وجہ سے میں نے کبھی اپنے گاؤں کے لیے آواز نہیں اٹھائی۔سماج کی اس سوچ کے خلاف آواز بلند نہیں کی جہاں یہ غلط سوچ بنی ہوئی ہے کہ خواتین کے مقابلے مرد اچھے سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ اگر عورت گھر کوبخوبی سنبھال سکتی ہے تو وہ باہر کی چیزوں کو بھی اچھی طرح سنبھال سکتی ہے۔ ہما کا کہنا ہے کہ میں بہت شرمندہ ہوں کہ گاؤں کی خواتین کی بات تو دور خود اپنے لئے آج تک آواز نہیں اٹھا سکی۔گرام پردھان کا یہ اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ گاؤں میں صنفی عدم مساوات کس حد تک ہے۔(چرخہ فیچرس)