بابر نفیس
ڈوڈہ، جموں
وادی چناب کے پہاڑی علاقوں کے کسان کھیتی پر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔چناب وادی تین اضلاع پر مشتمل ہے،جس میں ضلع کشتواڑ،ضلع رام بن اور ضلع ڈوڈہ شامل ہیں۔واضح رہے تینوں اضلاع کے پہاڑی علاقوں میں نوے فیصد لوگ زراعت پر دار و مدار رکھتے ہیں جب کہ آج سے دس سال قبل ان ہی پہاڑی علاقوں میں سو فیصد لوگ کاشتکاری کے نظام سے وابستگی رکھتے تھے۔ان پہاڑی علاقوں میں نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی اس میں شامل رہتی ہیں۔ دوران کاشتکاری یہاں کے کسانوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس سلسلے میں جب ہم نے نوے سالہ بزرگ محمدابراہیم ماگرے سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ آج سے پچاس سال پہلے پہاڑی علاقوں کی آبادی بہت کم تھی اور اس وقت کسانوں کے پاس زمین بہت زیادہ تھی۔ لیکن تب لوگ کاشتکاری کے عادی تھے، لوگ دن رات ایک کرکے اپنی زمین زیادہ سے زیادہ اناج پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ کسانی ایک رواج سا بن چکا تھا۔بہت سارے نامور لوگ اس کی وجہ سے ہی پہچانے جاتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سماج میں اسے ایک اہم درجہ حاصل تھا۔ لیکن آج کاشتکاری کے نظام کے علاوہ لوگوں کو دوسری جگہوں پر بھی روزگار کے مواقع نظر آتے ہیں۔ لیکن اس وقت جدیدیت کا سہارا لیتے ہوئے زراعت کی جانب زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا ملک خود کفیل بن سکے۔انہوں نے کہا کہ چناب وادی کے تینوں اضلاع کے پہاڑی علاقوں میں کئی طرح کی دالیں اور اناج کی کاشتکاری کی جاتی تھی۔لیکن آج کل کے لوگ زمین سے نکلنے والے اناج صرف گھر میں استعمال کرتے ہیں خرید و فروخت کا سلسلہ تھم چکا ہے۔
ضلع کشتواڑ کی تحصیل مغل میدان کے دو بیل سے تعلق رکھنے والے سریش کمار کہتے ہیں کہ زمین سے نکلنے والے اناج کو جو وسعت پہلے تھی وہ آج نہیں ہے۔انہوں نے بتایا کہ کسانوں کے بہت سارے مسائل ہیں جس کا حل انتظامیہ کو نکالنا چاہیے۔انتظامیہ لوگوں کی شکایات کا ازالے کولے کر کوئی پروگرام کرے تو یہاں کے پہاڑی علاقوں کے لوگوں کے لیے کافی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کی پہاڑی علاقوں کی زمین بہت زرخیز ہے جس سے یہاں مختلف طرح کے باغات کو تیار کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگ آج بھی زندہ ہیں لیکن انہیں کاشتکاری کی فائدے نظر نہیں آتے۔اس سلسلے میں ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک عمر رسیدہ خاتون کہیی ہیں کہ کاشت کاری میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ محکمہ اور انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو تمام سہولیات فراہم نہیں کی گئیں جو آج کے ترقی یافتہ دور میں ہونی چاہیے۔دراصل کاشت کاری کے سلسلے میں اعلیٰ پیمانے پر توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ مختلف طرح کی مشینوں کا انتظام کیا جانا چاہئے تھا تاکہ وطن عزیز کا ایک بڑا طبقہ جو زراعت سے وابستہ ہے فائدہ حاصل کرتا۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف طرح کے بیج آج انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو فراہم کیے جانے چاہیے تھے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ وہ بھی انتظامیہ لوگوں کو مہیا کرنے میں کسی حد تک ناکام رہتی ہے جبکہ اس جانب خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
اس ضمن میں جب ہم نے ضلع ترقیاتی کونسل محراج ملک سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ کونسل میں اس سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی تھی کہ پہاڑی علاقہ کے لوگوں کو کاشت کاری کے سلسلے میں خصوصی تربیت اور تکنیکی مدد دی جائے تاکہ انہیں کاشتکاری کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ کاشتکاری کو لے کر آنے والے وقت میں ایک اجلاس ضرور منعقد کیا جائے گا جس میں زراعت سے وابستہ تمام تر مسائل زیر بحث آئیں گے۔ جب اس سلسلے میں ہم نے ایس ڈی ایم تعمیر زرگر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ صرف انتظامہ یا محکمہ کے حرکت سے کچھ نہیں ہوگا، کاشتکاروں کو بھی بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک مرتبہ متعلقہ محکمہ سے بات کی تھی لیکن لوگوں کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں ایک آگاہی پروگرام ضرور منعقد کیا جائے گا جس میں کسانوں کے مسائل اور مشکلات کا نوٹس لیا جائے گا اور ان کا حل مستقل میں نکالا جائے گا۔(چرخہ فیچرس)