سہیل علی(پونچھ،جموں)
بے روزگاری، غربت اور افلاس ایک ایساکنواں ہے جس میں ایک بار کرنے والا گرتا ہی جاتا ہے۔ غربت کے کنویں میں جتنا نیچے کوئی دب جاتا ہے اتنی ہی ناکامی، ناامیدی اورمشکلات سے گزرتا ہے۔ اس کنویں میں جتنا کوئی گرتا جاتا ہے وہ اتنا ہی سماج سے اور یہاں تک اپنے آپ سے دور ہوتا جاتا ہے اور یہ ایل عالمی المیہ ہے۔غربت سے تنگ آکر دو وقت کی روٹی میسر نہ ہونے پر لوگ خود کشی کرلیتے ہیں یہاں تک کہ کئی لوگ بھوک کے کارن بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور بالآخراپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔عالمی سطح پر غرب سے نمٹنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور پائدار ترقی اہداف میں بھی غربت کو خصوصی توجہ دی گئی ہے لیکن اس عالمی المیے سے ابھی تک انسانیت کو نجات نہیں ملی۔ ایک شخص اس وقت تک غریبی سے جد و جہد کرتا ہے جب تک وہ نا امید اور ناکام نہیں ہو جاتا۔لیکن جب وہ ہار مان جاتا ہے تو اس کے ایام دن بدن خستہ حالی کی جانب دھکیلتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔جہاں افلاس کا سامنا ہے وہاں صحت کے مسائل ہیں،وہاں تعلیمی پسماندگی ہے اور ان ممالک میں اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔عالمی سطح پرغربت سے لڑنے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات قابل داد ہیں۔ لیکن اس جانب مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک عالمی المیہ ہے جس پر قابو پانا وقت کی ضرورت ہے۔غریبی کا احساس اُسی کو ہوتا ہے جو اس کا سامنا کرتا ہوتا ہے یہاں مقامی سطح پر بھی مقامی حکومتوں اور بر سر اقتدار اشخاص کو اس المیے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ غربت و افلاس کے پیچھے بے روزگاری ہے۔
جموں وکشمیر میں ایک بڑا طبقہ جو تعلیم یافتہ بھی ہے لیکن بے روزگاری کا سامنا کر رہا ہے۔ جموں وکشمیرمیں سروسز سلیکشن بورڈجو سرکاری نوکریوں کیلئے امتحان کرواتا ہے اور جموں و کشمیر سروسز سلیکشن بورڈ سے نوجوانوں کو کافی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن چند برسوں سے امتحانات کا سلسلہ متاثر ہے۔سب انسپیکٹراورایف اے اے امتحانات کے معاملے کے بعد اب نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ خیر جموں و کشمیر کے نوجوان بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں جس جانب جموں و کشمیر انتظامیہ کو خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔یہ پڑھے لکھے نوجوان مزدوری کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں کیونکہ اس سفر میں ان کے آرے ان ڈگریاں آتی ہیں جو کل سماج کے سامنے انہوں نے سرکاری نوکری حاصل کرنے کی خاطر کیں تھیں۔ دو سال قبل پہلے میرے کچھ ہم جماعتوں نے اپنی تعلیم کو خیر آباد کہتے ہوئے گھر کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کی کوشش کی۔ایک ساتھی نے کار رپیئر کا کام شروع کیا اور مجھے بھی مشورہ دیا کہ یہ کام سیکھ لیں کیونکہ اعلیٰ ڈگریوں کے حاصل کرنے کے بعد بھی یہی کام کرنے پڑیں گے اور اس کی خاص وجہ بے روزگاری اور غربت ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہم نے جلد ہی پڑھائی کو خیر آباد کہہ کر کام سیکھا اور آج کام کر رہے ہیں لہذا تعلیم کو خیر آباد کہہ کر کام سیکھو اور گھر چلاؤ۔میرے کئی ساتھی ایسے ہیں جنہوں نے تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا ہے کیوں کہ ہمارے سامنے ہمارے بڑے پریشان حال ہیں جنہوں نے ڈگریاں حاصل کیں لیکن آج سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ غور طلب بات ہے کہ کئی تعلیم یافتہ نوجوان نوکری حاصل کرنے کی عمر کو پار کر کے بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔آج غریب نوجوانوں کی ذہن میں یے بات بس چْکی ہے کہ نوکری ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے کیونکہ ان کی بے بسی اور غرب نے انہیں اعلیٰ تعلیم سے دور رکھا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی نوکریوں کی تلاش میں عمر کی حد کو پار کر رہے ہیں۔ ایک غریب طالب علم جو اعلیٰ تعلیم کے لیے اعلیٰ اداروں میں نہیں پہنچ سکتا اس کیلئے نوکری دور کی بات بن جاتی ہے اور بالآخر اس کے حصے نا امیدی اور بے بسی ہی آتی ہے۔
اس سلسلے میں امیرنامی ایک نوجوان نے کہاکہ میں گیارھویں کلاس کے بعد اپنی تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا ہے۔ کیونکہ مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں آگے کی تعلیم حاصل کرکے کے بھی کچھ بننے والا نہیں دکھا۔ میرے سے آگے تعلیم حاصل کرنے والے کئی ساتھی آج بے روزگاری کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ اعجاز حسین نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے اعلیٰ تعلیم اور ڈگریاں حاصل کر کے بھی کچھ نہیں بننے والا کیونکہ بے روزگاری جیسے مسائل سے نوجوان نسل جوجھ رہی ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ ایک امتحان اگر کوئی پاس کر بھی لے تو کئی کئی برس تک اس فہرست نکلنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اگر نکل بھی جائے تو عدالتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس سے نوجوانوں کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔وسیم نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے جب نوجوانوں کو ڈگریوں کے ساتھ بے روزگار دیکھتا ہوں تو اعلیٰ تعلیم کے میدان میں قدم رکھنے سے ڈر لگتا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ کئی نوجوانوں کو نوکری کی حد کی عمر پر کر کے بے روزگار دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ بے روزگاری سے نوجوان نسل پریشان ہے۔اس وقت جبکہ سرکار بے روزگاری کے خاتمے کیلئے اقدامات بھی کر رہی ہے لیکن زمینی سطح پر اعلیٰ تعلیم یافتہ ایک بڑا طبقہ بے روزگاری کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور اس جانب سرکار کو خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل پریشانیوں کا سامنا نہ کرے۔(چرخہ فیچرس)