تحریر:-فاضل شفیع فاضل
ساجد اب دنیا بدل چکی ہے۔ پرانے رسم و رواج ختم ہونے کے عروج پر ہیں۔ ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے اور آج بھی تمہارے پاس موبائل فون نہیں ہے۔ اپنی سوچ بدل ڈالو۔ آپ اتنی اچھی نوکری کر رہے ہو! پھر ایک موبائل فون کیوں نہیں خرید لیتے؟ آج کل اپنے رشتے داروں کے یہاں کون جاتا ہے۔ بس ایک ویڈیو کال سے حال چال پوچھ لینا ایک رواج بن چکا ہے اور آپ ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
نبیل بھائی آپ کی بات بالکل صحیح ہے لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ان چیزوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں آج بھی ہر رشتہ دار کے گھر آتا جاتا رہتا ہوں، سب کی خبر لیتا ہوں، تبھی مجھے سکون ملتا ہے۔ خیر آپ کے کہنے پر میں آج ہی بازار سے ایک موبائل فون خرید کر لاتا ہوں۔
ساجد ایک سیدھا سادہ، تعلیم یافتہ سرکاری ملازم تھا جو اپنے والدین کا کافی خیال رکھتا تھا۔ نبیل کے کہنے پر ساجد بازار سے ایک موبائل فون خرید کر لاتا ہے اور نبیل کی مدد سے موبائل فون استعمال کرنے کے فن سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ اب ساجد بھی اپنے رشتے داروں کا حال چال فون پر ہی پوچھنے لگا۔ اپنے دوست کے کہنے پر ساجد نے فیس بک چلانا بھی شروع کر دیا اور اس طرح اس کی زندگی میں اب نئے اور اجنبی دوستوں کی آمد کا آغاز ہوا۔ ساجد نے نہایت کم مدت میں بہت سارے دوست بنا لیے جو ساجد کی ہر ایک پوسٹ کو لائیک کرتے تھے اور کبھی کبھی کمنٹ بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دن ساجد کو کسی انجان پری نامی لڑکی کی فرینڈ ریکویسٹ آئی۔ ساجد نے بھی پری نام دیکھتے ہی قبول کرلی اور اس طرح ساجد کی زندگی میں ایک نئے دوست کا اضافہ ہوا۔ پری نے ساجد کے پروفائل میں کافی زیادہ دلچسپی دکھائی اور وہ ساجد کے ہر پوسٹ پر لائک اور کومنٹ کرتی تھی اور ساجد کی کافی پذیرائی کرتی تھی جس کی وجہ سے ساجد کافی حد تک متاثر ہوا۔ کچھ دن بعد پری نے ساجد کو میسج کر کے اس کا حال چال پوچھا اور اس طرح فیس بک پر ساجد اور پری کی باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ 22سالہ پری کولکتہ کی رہنے والی ایک ٹیچر تھی جو گھر میں اپنی بیمار ماں کے ہمراہ رہتی تھی۔ اس کے علاوہ پری کے پاس ایک شاندار گھر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت گاڑی بھی تھی اور ان سب چیزوں کی تصویریں پری نے ساجد کو ارسال کی تھی۔ یہ ساری باتیں پری نے ساجد کے ساتھ فیس بک پر شیئر کی تھی۔ ساجد نے بھی پری کو اپنے گھر کے حالات سے روشناس کیا اور اس طرح ساجد اور پری بہت اچھے دوست بن گئے۔
ساجد دفتری کام سے چند دن موبائل فون کا زیادہ استعمال نہ کر سکا اور خاص طور پر پری سے اس کا رابطہ منقطع رہا۔ مصروفیت کے بعد ساجد کا انبئکس (inbox) پری کےپیغامات سے بھرا ہوا تھا جس میں میر تقی میر کے ساتھ ساتھ غالب کے اشعار کا ایک سیلاب تھا اور پری نے ساجد کو بے وفا یار کے لقب سے نوازا تھا۔ ساجد یہ دیکھ کر کافی پریشان ہوا۔ وہ پری کو اپنی جان سے زیادہ چاہنے لگا تھا۔ دراصل پری نے اسکے دل میں اپنا گھر بنا لیا تھا۔ ساجد نے اپنی مصروفیت کی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک معافی نامہ اور اپنا فون نمبر بر پری کےانبئکس(Inbox) میں بھیج دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں ساجد کے فون کی گھنٹی بج گئی۔۔ یہ کوئی انجان نمبر تھا۔۔ ساجد نے ہیلو کیا!
دوسری جانب ایک نہایت خوبصورت اور دلکش آواز نےساجد کو سلام کیا:
” اسلام علیکم ساجد، میں کولکتہ سے پری بول رہی ہوں”! ساجد کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے فون پر دیر رات تک باتیں کرنے لگے۔ ساجد اور پری نے ایک دوسرے سے اپنی محبت کا اظہار کیا اور دونوں نے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ ساجد نے اپنی امی سے مشورہ لینا مناسب سمجھا اور ان کو ساری باتیں بتا دیں۔ امی نے تو سیدھے سیدھے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ انٹرنیٹ کی دنیا کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ پہلے کولکاتہ چلتے ہیں، اُدھر پری کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے محلے والوں سے پری کے اہل خانہ اور خاندان کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ ساجد نے پری کو فون کرکے اپنی امی جان کی رائے سے آگاہ کیا۔ پری کو ساجد پر کافی غصہ آیا اور غصے کی حالت میں اس نے فون کاٹ دیا۔ پری کا فون کاٹ دینا گویا ساجد کے دل کو چھلنی کرنے کے مترادف تھا۔ ساجد بہت رویا اور اس کی بے چینی بڑھتی گئی۔ اچانک پری کا فون آگیا۔ فون دیکھتے ہی ساجد کا دامن خوشیوں سے بھر گیا۔ ساجد نے اپنی مجبوری اور گھر کے حالات پری کے سامنے رکھ دیے۔ پری نے ساجد کو سمجھایا اور چند ہی منٹوں میں ساجد کا فون پری کی حجاب آمیز اور خوبصورت تصویروں سے بھر گیا اور ساجد نے وہ سب تصویریں اپنی امی جان کے سامنے رکھ دی۔ ساجد کی امی نے اب بھی ان تصویروں کا کوئی بھروسہ نہیں کیا اور اپنے بیٹے کو کافی سمجھایا لیکن اب ساجد اپنی ضد پر اتر آیا اور اس نے پری سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ بوڑھے والدین ساجد کی ضد کے سامنے بے بس و لاچار تھے کیونکہ ساجد ان کے بڑھاپے کا اکیلا سہارا تھا۔
ساجد اور پری نے فون پر شادی کی تاریخ 15 مارچ مقررکی۔ ساجد کی شادی میں محض بیس دن بچے تھے اور بالآخر بارہ مارچ کو ساجد اپنے دوست نبیل کے ہمراہ کولکتہ پری کے دیے ہوئے پتے پر روانہ ہوا۔ دو دن سفر کے بعد ساجد اور نبیل پری کے گھر پہنچ گئے جہاں پری کی والدہ نے ان کا استقبال کیا۔ پری شاپنگ کے سلسلے میں بازار گئی ہوئی تھی۔ جب دیر رات تک پری گھرواپس نہیں لوٹی تو ساجد اور نبیل ایک کمرے میں سو گئے۔ 15 مارچ کی صبح ہوتے ہی ساجد نے فجر کی نماز ادا کی اور وہ پری کو دیکھنے کے لئے بڑا بے تاب تھا۔ دس بجے کے قریب ایک مولوی صاحب پری کے گھر تشریف لایا جس کو نکاح کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ نکاح کے مبارک موقع پر بھی پری کہیں نظر نہیں آرہی تھی جبکہ اس نے نکاح نامہ پر پہلے ہی اپنے دستخط کیے تھے۔ جس سے یہ بات بالکل صاف تھی کہ پری اپنی مرضی سے ساجد کے ساتھ نکاح کرنے جا رہی تھی۔ مولوی صاحب اور نبیل کے کہنے پر ساجد نے پری کو بنا دیکھےنکاح نامے پر اپنے دستخط کرکے اسکو ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی کا ساتھی چن لیا۔ نکاح ہو چکا تھا لیکن پری کو دیکھنے کی بیتابی نے ساجد کو بے چین کر دیا تھا۔ ساجد اپنے موبائل میں بائیس سالہ پری کی خوبصورت تصویروں کو دیکھ کر اپنی بے چینی میں کچھ حد تک راحت محسوس کر رہا تھا اور اسی بیچ پری نے ساجد کو اپنے آرام گاہ میں مدعو کیا۔ وہ سماں آگیا تھا جس کا ساجد پچھلے چھ ماہ سے منتظر تھا۔ اپنی خوبصورت بیوی کی جلوہ گری میں محض چند لمحات باقی تھے۔ اب انتظار کا وقت ختم ہو چکا تھا اور پری نے اپنے رخ سے گھونگھٹ ہٹا کر ساجد کا خیرمقدم کیا۔ پری کو دیکھتے ہی ساجد چکر کھا کر گر گیا۔ جس 22 سالہ خوبصورت پری کو ساجد نے اب تک اپنے موبائل کی وساطت سے دیکھا تھا وہ کوئی چالیس سالہ، سانولے رنگ کی عورت تھی۔ ساجد کے خوابوں کا جنازہ نکال رہا تھا۔ اس کے ارمان مٹی میں مل رہے تھے۔ یہ سارا ماجرا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ اب پری نے اپنا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ ساجد میاں میرا اصل نام حسینہ ہے اور یہ میری تیسری شادی ہے۔ جو تصویریں میں نے آپ کو فیس بک پر ار سال کی تھی وہ دراصل میں نے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ(Downlaod) کی تھی۔ آپ کتنے اچھے ہو جو آپ نے مجھ پر بھروسہ کیا۔ چلو اب پنی آنکھوں میں اپنی پیاری بیگم حسینہ کی صورت کو قید کر لو۔۔ اب آگے کی زندگی میرے ساتھ ہی بسر کرنی ہے۔۔۔!!