سلمی راضی (منڈی پونچھ)
ہر طرف سے آواز آرہی ہے کہ ہندوستان کو اب نئی بلندیوں تک لے جائیں گے۔ اب ہر فرد وبشر تک ترقی کی مشین پہونچ جایگی۔ شاندار سڑکیں ہونگی اور ہر ایک کی زندگی بہتر ہوگی۔ لیکن وقت گزرتے یہ بھی بس دل بہلانے اور اپنی کرسی کے حصول کے ہی طریقے معلوم ہوتے ہیں۔ ملک کی سب سے حسین وجمیل ریاست جموں وکشمیر جو اب مرکز کے زیر اہتمام ہے۔یہاں سڑکوں کے نام پر کروڑوں کا بجٹ ہر سال بنتاہے۔ پھر نئے سال اور بجٹ بنتے ہیں۔ اب تک تو یہ بجٹ جس کا مقصد علاقوں میں بہترین سڑک سہولیات کی فراہمی ہے۔ لگتایہی ہے کہ یہ سڑکیں بھی کہیں کاغذوں میں ہی اور اب آن لائین ہی نکل رہی ہونگی۔ زمینی حقائیق اس کے بلکل برعکس ہیں۔ جموں وکشمیر کا سرحدی ضلع پونچھ جہاں ہر ایک معاملا میں پسپائی اور عدم توجہی سابقہ روائیت کی طرح چل رہی ہے۔ پونچھ کو سرینگر سے ملانے والی مغل شہراہ اپریل کے مہینہ میں بھی جو انتظامیہ نہ کھول پائی۔اس سے نئی سڑکوں کی امیدیں کیسے لگائی جاسکتی ہیں؟ تحصیل منڈی کے 90 فیصدی گاؤں ابھی مکمل سڑک کی سہولیات سے یا تو بلکل ہی محروم ہیں یا پھر خستہ حال سڑکیں زمینوں کی تباہی وبربادی سے پریشان ہیں۔
ضلع پونچھ سے قریب 30کلومیٹر دور بلاک لورن کے زیر اہتمام علاقہ ناگاناڑی،بن بالا،بن درمیانہ بن اول،شیخاں،سٹیلاں پوری طرح سے سڑک سے محروم ہیں۔ منڈی لورن روڈ لوہیل بیلا اور براچھڑ کے مقام سے ناگاناڑی،بن بالا،بن درمیانہ،بن اول،شیخاں اور سٹیلاں کی طرف راستہ نکلتاہے۔ دو جھولے پلوں سے ہوتے ہوے ان علاقوں کے لوگ برسوں سے میلوں سفر پیدل چل کر منڈی پونچھ یا لورن کے لئے پہونچتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک مقامی لطیفہ بی جن کی عمر41سال ہے اور تحصیل منڈی کے گاؤں ناگاناڑی سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ وہ علاقع ہے جہاں ایک صحت مندانسان بھی پیدل چل کر تین سے چار گھنٹے میں پہونچ سکتاہے،ان کا کہناہے کہ ”پراناوقت تھاجب انگریزی ادویات کا دور نہیں تھا۔ تو گھروں میں ہی بچوں کی پیدایش ہوتی تھی۔ لیکن جوں جوں انگریزی ادویات کا دور چلاہے۔ تو اب خواتین کے امراض میں بھی اضافہ ہونے لگاہے۔ پیدایش بھی اب گھر کے بجاے مجبوری کی بناپر ہسپتالوں میں کروانی پڑتی ہے۔ایسے میں حاملہ خواتین کے لئے ناگاناڑی سے لوہیل بیلاتک تین یا چار گھنٹہ کا سفر پیدل طے کرنا کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ایسے میں انہیں ڈنگی پر اٹھاکر چھ یا آٹھ افراد کی مدد سے لوہیل بیلاتک لیجایاجاتاہے۔اس دوران انہیں کس قدر تکلیف اور دردسے گزرنا ہوتاہوگا۔وہ ایک خاتون ہی جانتی ہے۔ اب اگر ایک خاتون کی ڈیلیوری میں ایک گھنٹہ یا کچھ ہی وقت باقی ہو تو اس کی حالت کیا ہوتی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ کبھی کبھی راستہ میں ہی یاتو ڈیلیوری کے دوران وہ خاتون مرجاتی ہے یاپھر اس کا بچہ ضایع ہوجاتاہے۔ کبھی کبھار دونوں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اگر یہاں سڑک ہوتی تو یہاں سے یہ سارے بندوبست کئے بغیر ہم اپنی حاملہ خواتین کو ہسپتال تک گاڑی کے زریعہ وقت پر پہونچادیتے۔ نہ جانے مزید کتنے سال اور ہم اس پریشانی سے گزرتے رہیں گے۔“
نام نہیں شائع کرنے کی شرط پر بن علاقع کی ایک 35سالہ خاتون نے کہاکہ ”ہمیں جب بھی کسی حاملہ خاتون کی ماہانہ جانچ کرواناہوتی ہے۔ یہاں سے صبح سویرے نکلنا پڑتا ہے۔ تو لوہیل بیلاتک پیدل پھر وہاں سے منڈی وہاں بھی ڈاکٹر ہی نہیں ہوتے ہیں تو پونچھ جانا ہوتا ہے۔غرض دوسرے روز گھر واپس پہونچتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تمام تر جانکاری یا ریپورٹ ہفتہ وار یا روزانہ پیدل چل کر لورن پرائیمری ہلتھ سنٹر میں پہونچائی جاتی ہے۔ اگر یہاں سڑک ہوتی تو تمام تر کام وقت پر ہوسکتے ہیں۔ زچہ بچہ اور خواتین بھی محفوظ رہ سکتی ہیں۔ہماری بہت ساری خواتین سرکاری اسکیموں سے محض اس لئے فیض یاب نہیں ہوسکتیں کہ پیدل چل کر وہاں تک پہونچا نہیں جاتاہے۔“وہیں ایک مقامی چوہدری لعل دین جن کی عمر 76سال ہے ان کا کہناہے کہ عمر گزر گئی اس انتظار میں کہ ہم کو بھی سڑک ملے گی۔ سڑک تو ملی نہیں ابھی تک مگر انتظار بہت گہراہوتاگیا۔نسلیں گزرگئیں اس انتظار میں لیکن اب بھی انتظار ختم ہوتانظر نہیں آتا ہے۔“وہ بتاتے ہیں کہ متعدد لوگ سردیوں اوربرف باری میں ناگاناڑی،بن بالا بن اول دوم سے منڈی جاتے ہوئے راستے میں پاو پھسل کر یا کہیں گرکر اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ تب بھی یہاں کی انتظامیہ اور لیڈران کو رحم نہ آیاکہ سڑک کی تعمیر کرا دیں۔بشیر احمد شیخ جن کی عمر 65سال سے زائید ہے اور بن اول کے محلہ شیخاں کے مکین ہیں،کہتے ہیں کہ ”ہندوستان کی آزادی کے بعد سے آج تک کئی حکومتیں رہیں۔کئیں بار وعدے کئے گئے مگراب تک وفانہ ہوے۔ سڑک نہیں تو یہاں سرکاری اسکولوں کا نظام خستہ حال ہے، آنگن واڑیوں کا نظام بدترین ہے،صحت نظام کا فقدان ہے،راشن کی مصیبت،بجلی پانی کا ہاہاکار،پنچائیتوں کا کام صیح ہو رہا ہے، غرض کہ ترقیاتی کام اور حوشحالی کے خواب بغیر سڑک رابطے کے ہر گز ممکن نہیں ہے۔ایسے میں پہلی فرصت میں اب بھی یہاں کی عوام سڑک کی ہی مانگ کے ساتھ امید ظاہر کرے گی کیوں کہ دور جدید میں سڑک کسی بھی علاقع کی ترقی اور خوشحالی میں سڑک سے زیادہ کوئی کام بھی اتناکارگر نہیں جتناکہ اس علاقع کو سڑک کو جوڑناہے۔
بلاک لورن کے ضلع ترقیاتی کونسل ممبر چوہدری ریاض بشیر ناز سے بن ناگاناڑی کی سڑک کی تاخیر کے حوالے سے جب بات کی گئی تو ان کا صاف کہناتھاکہ”لورن بلاک میں جس کی گیارہ پنچائیتیں ہیں۔ ان کی ہی مجھے نمائیندگی ملی ہے۔اگر میں یہاں پوری ضلع پونچھ کے لئے کام کرسکتاہوں تو یہاں بن ناگاناڑی کے لئے بھی کوشش میں مصروف ہوں۔لوہیل بیلا سے بن ناگاناڑی تک سڑک کا پروجیکٹ بناکر بھیج دیاگیاہے۔اس کے علاوہ لوہل بیلا سے پل کا پروجکٹ بھی انتظامیہ کو بھیجاگیاہے۔مجھے امید ہے کہ بہت جلد اس پر کام ہوگا۔ جلد ہی اس پروجکٹ کی منظوری کے بعد یہاں سڑک کی مشکل بھی دور ہوجائے گی۔ عوام ابھی تھوڑا صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔یہ میری ذمہ داری ہے۔ جس کو میں بخوبی انجام دوں گا۔اوربہت جلد بن ناگاناڑی کی عوام سڑک کی سہولیات سے فیضیاب ہوگی۔“اس حوالے سے محکمہ تعمیرات عامہ کے ایسیسٍنٹ ایکزیکٹیو انجینیر کی موجودگی میں جونئیر انجینیر سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ”لوہل بیلاسے ناگاناڑی بن کے راستے ناباڈاسکیم کے تحت پروجیکٹ 2023/24کو منظوری ملی ہے۔ ضلع پونچھ کے تعمیراتی کاموں کے ساتھ ساتھ لوہیل بیلہ سے ناگاناڑی ساڑے تین کلومیٹر سڑک نباڈ کے زیر اہتمام 892.56کروڑ کا پروجیکٹ منظور ہوا ہے۔ جبکہ چکھڑی PHCسے بن PMGSY کے زیر اہتمام 437.60 کروڑ کا پروجیکٹ منظور ہواہے۔ جس کے لئے جلد ہی رقومات کی منظوری کے بعد کام لگاے جائیں گے۔“ بہرحال، حکومت وقت اگر چاہے تو اس دوردراز اور پسماندہ علاقع بن ناگاناڑی کو سڑک سے جوڑنے کا کام تیزی سے عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ ورنہ پھر وہی بھینس کے سامنے بین بجانے کا محاورہ ہی صادق ہوگا۔ اب لوگوں کا تو یہی سوال ہے کہ ہم آزاد کیسے ہیں جب ہمیں سڑک کی سہولیات بھی میسر نہیں ہے؟ (چرخہ فیچرس)