ریاض فردوسی۔9968012976
مروان بن حکم کے قتلِ کے بعد اس کا لڑکا عبد الملک بن مروان تخت نشیں ہوا، وہ بنو امیہ کا پانچواں خلیفہ تھا اور وہ سال 685ء سے لیکر سال 705ء تک قریب بیس سالوں تک حکومت کی اور اسکی خلافت ملک شام، فلسطین اور مصر تک قائم تھی۔ عبد الملک کی خلافت کے دوران مکہ اور مدینہ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت قائم کر چکے تھے۔ عراق کے دو مشہور شہر بصرہ اور کوفہ کی حکومت ابھی تک اموی خلافت کے ماتحت نہیں ہوئی تھی، بصرہ پر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حکومت قائم تھی اور وہاں کے گورنر عبداللہ بن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیرؓ تھے، دوسری طرف کوفہ پر مختار بن عبیدہ ثقفی نامی شخص کی خودمختار اور آزادانہ حکومت قائم تھی۔
جس وقت شہید کربلا کا واقعہ ہوا تھا اس وقت مختار ثقفی جیل میں بند تھا، جیل ہی میں شہادت حسینؓ کی خبر اسے موصول ہوئی جسے سن کر وہ بہت ہی غصہ اور غمزدہ ہوا تھا اور جیل ہی میں قسم کھائی تھی کہ اگر میں زندہ رہا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خون کا عوض قاتلینِ سے لوں گا اور ایسا خون بہاؤں گا کہ لوگوں کو بخت نصر کا زمانہ یاد آ جائے گا۔ اہل کوفہ نے مختار ثقفی کے ہاتھوں پر بیعت کی اور بعض لوگوں نے مدینہ جاکر حضرت محمد بن حنفیہؓ(محمد ابن حنفیہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہ اور خولہ بنت جعفرؓ کے صاحب زادے تھے۔ ان کی ماں قبیلہ بنو حنیفہ سے تعلق رکھتی تھی۔ ماں کی نسبت سے مولیٰ علی کرم اللہ وجہ کے اس لڑکے کو محمد بن حنیفہ کہتے ہیں۔ شہید کربلا کے بعد یہ شیعوں کے سیاسی رہنما مقرر ہوئے) سے ملاقات کی،انہوں نے کوفہ والوں سے کہا کے انہوں نے مختار ثقفی کو قاتلینِ حسین سے بدلہ لینے کے لیے مامور کیا ہے۔ مختار نے اپنے ہمرایوں کے ساتھ کوفہ میں خروج کیا۔ کوفہ میں کوئی بھی گھر ایسا نہیں بچا جس میں ایک دو یا زیادہ آدمی قتل نہ کیے گئے ہوں۔ مختار نے لوگوں کی فہرستیں مرتب کروائیں جو ابن زیاد کے لشکر میں شہادتِ حسینؓ کے وقت موجود تھے یا جنہوں نے کسی قسم کا کوئی حصہ میدان کربلا میں لیا تھا۔ قتل و گرفتاری کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ لوگ گھروں سے گرفتار ہو ہوکر آتے تھے اور قتل کیے جاتے تھے۔
خلیفہ عبدالملک بن مروان مختار ثقفی کی بڑھتی ہوئی طاقت و اقتدار کو روکنے کے لیے موصل کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، شامی فوج کا مقابلہ ابراہیم بن مالک بن اشتر کی قیادت میں کوفی فوج کے ساتھ اگست 686ء میں موصل میں دریا خازر کے پاس ہوا۔ اس جنگ میں لشکر شام کو شکست ہوئی اور ان کا سپہ سالار اعظم عبیداللہ بن زیاد مارا گیا اور اس کا سر کاٹ کر مختار کے پاس کوفہ کی جانب روانہ کیا گیا۔ اس شکست سے موصل اموی مملکت سے نکل جاتا ہے اور اس پر مختار ثقفی کا قبضہ ہو جاتا ہے اور ابراہیم بن مالک بن اشتر اس کا گورنر مقرر ہوتا ہے۔
مختار ثقفی کے ڈر سے بہت سے لوگ کوفہ سے بھاگ کر بصرہ پہونچے اور بعض لوگ براہ راست مدینہ پہونچ کر خلیفہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرکے مختار ثقفی کی ظلم اور تشدد کی شکایت کی اور مزید یہ کہ وہ شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جبریل امین علیہ السلام ان کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی مصعب بن زبیر ؓکو مختار ثقفی کے استیصال کے لیے کوفہ پر حملہ کرنے کا حکم جاری کیا۔ مصعب بن زبیرؓ اور فارس کے گورنر مہلب بن ابی صفرہ اپنی لشکر کے ساتھ بصرہ سے کوفہ کی جانب مختار ثقفی کے خلاف فوج کشی کے لیے نکلے۔ جنگ میں مختار کو شکست ہوئی اور وہ بھاگ کر دار الامارۃ میں اپنے ایک ہزار حامیوں کے ساتھ محصور ہو گیا۔ آخر کار مختار خوشبو، تیل اور عطر لگاکر قلعہ کا دروازہ کھولا اور مقابلہ کے لیے نکلا۔ مختار ثقفی مارا گیا اور اور قریب چھ ہزار محصورین کو گرفتار کیا گیا اور مشورہ کے بعد مصعب بن زبیرؓ نے یہی فیصلہ کیا کہ ان لوگوں کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ سب قتل کر دئے گئے اور اس طرح کوفہ پر خلیفہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قبضہ ہو گیا۔
فتنہ مختار کو ابن زبیر ؓ نے ختم کر دیا تو موقع کو غنیمت جان کرعبدالملک بن مروان ایک لشکر جرار کے ساتھ شام سے عراق کی جانب مصعب بن زبیرؓ سے مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ دارجاثلیق کے قریب دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے،عبدالملک یہ نہیں چاہتا تھا کہ مصعب بن زبیر ؓقتل کیے جایں۔ اس لئے اس نے مصعب کو امان پیش کیا لیکن انہوں نے عبدالملک کے امان کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور جنگ میں شہید ہونا بہتر سمجھا۔ اس جنگ میں افسوس کی بات یہ تھی کہ کوفی لشکر نے اپنے امیر کا جنگ میں ساتھ نہیں دیا اور میدان جنگ میں تماشہ بین بنے رہے اور بعض فوجیوں کو عبدالملک نے انعام و اکرام کا لالچ دیکر اپنی طرف کر لیا تھا جس سے مصعب کی فوج کمزور پر گئی۔آخر میں مصعب بن زبیرؓ کو شکست ہوئی اور شامیوں نے ان کا سر کاٹ لیا اور کوفہ سے دمشق کی جانب بھیج دیا۔ دس برس کے بعد کربلا کا واقعہ دار جاثلیق میں دہرایا گیا۔ عبدالملک نے اسی میدان میں تمام لشکر کوفہ سے اپنی خلافت کی بیعت لی۔ اس کے بعد فارس، خراسان، بصرہ و اہواز وغیرہ کے عاملوں نے عوام سے خلیفہ عبدالملک کی خلافت کی بیعت قبول کروائی گئی۔اس طرح عراق پر عبدالملک کا قبضہ ہو گیا اور اب حجاز کو فتح کرنا باقی رہ گیا۔ یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جس طرح ایک جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے اسی طرح ایک خلیفہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے مقابل میں کوئی اور بھی خلیفہ رہے۔ عبدالملک چاہتا تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے صحابی ہونے کے احترام میں انہیں خلیفہ بنے رہنا دیتا لیکن اس نے ان کے خلاف فوج کشی کرنا ہی بہتر سمجھا۔
عراق میں اپنی حکومت قائم اور مستحکم کرنے کے بعد عبدالملک بن مروان نے فیصلہ کیا کہ حجاز کے خلیفہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو زیر کیا جائے۔ اس مشن پر اموی سپہ سالار حجاج بن یوسف سقفی تین ہزار کا لشکر لیکر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف کوفہ سے روانہ ہوا اور رمضان المبارک کے مہینہ میں مکہ مکرمہ کا محاصرہ کیا۔ دوسری طرف طارق بن عمر پانچ ہزار کا لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا اور وہاں زبیر رضی اللہ عنہ کے مقررہ گورنر طلحہ بن عبداللہ بن عوف کو شکست دیکر مدینہ پر قابض ہونے کے بعد حجاج بن یوسف کی مدد کے لیے مکہ مکرمہ کوچ کیا۔ ایام حج میں حجاج نے سنگباری شروع کی لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے درخواست پر حج ختم ہونے تک سنگباری بند کر دی گئی۔ اسی درمیان عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بہت سے آدمی حتی کہ ان کے دو لڑکے زبیر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر حجاج کے پاس چلے گئے۔ جب زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس صرف چند لڑنے والے لوگ رہ گئے تو حجاج نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہماری آمان میں آ جایں اور امیر المومنین عبدالملک کی بیعت اختیار کر لیں لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس آمان کو لینے سے مسترد کر دیا۔ بالاخر زبیر رضی اللہ عنہ جنگ میں شہید ہو گئے، ان کا سر کاٹ کر عبدالملک کے پاس بھیجا گیا اور لاش کو لٹکا دی گئی۔ حجاج کو حجاز کا گورنر بنا دیا گیا۔ اس نے اہل مکہ سے خلافت عبدالملک کی بیعت لی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے خانہ کعبہ کو ڈھا کر از سر نو خانہ کعبہ کی تعمیر کی گئی۔
حجاج بن یوسف حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش کو سولی سے اتروایا اور یہود کے قبرستان میں پیھنکوا دیا، پھر ان کی والدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کو بلوایا، انہوں نے اس کے پاس جانے سے انکار کردیا، ا س نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ میرے پاس آؤ ورنہ میں کسی آدمی کو بھیجوں گا جو تم کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا میرے پاس لے آئے گا، حضرت اسماءؓ نے انکار کردیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! میں اس وقت تک تیرے پاس نہیں آؤں گی جب تک تو مجھے بالوں سے پکڑواکر گھسٹواکر نہیں بلائے گا،پھر حجاج نے جوتیاں پہنیں اور اکڑتا ہوا حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور کہنے لگا ” تو نے دیکھا میں نے اللہ کے دشمن کو کیسے قتل کیا ” حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تم نے اس کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری عاقبت برباد کردی، مجھے معلوم ہوا کہ تو اس کو دو کمر بندوں والی کا بیٹا کہتا ہے، تو سن لے اللہ کی قسم! میں دو کمربندوں والی ہوں، کمر بند کے ایک ٹکڑے کے ساتھ تو میں نے رسول اللہﷺاورحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے کھانے کو سواری کے ساتھ باندھا تھا،اور دوسرا ٹکڑا وہ ہے جس سے کوئی عورت مستغنی نہیں ہوتی، اور سن! رسول اللہ ﷺنے ہمیں یہ حدیث بیان فرمائی کہ ثقیف میں ایک کذاب اور ظالم ہوگا، کذاب کو تو ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اور رہا ظالم تو میرے خیال میں وہ صرف تو ہی ہوسکتا ہے۔ان کی صاف گوئی ،بے باکی اور قوت ایمان دیکھ کر حجاج وہاں سے چلا گیا اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
عبداملک کے دور حکومت میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اپنا سکہ بنایا اور جاری کیا۔ اس سے پہلے شام، عرب مصر وغیرہ میں رومیوں کے سکے رائج تھے اور عراق میں عموماً ایرانیوں کے سکے رائج تھے۔ عبدالملک نے درہم و دینار کے سکے مضروب کرایا اور اسکے کے ایک طرف قل ھوا اللہ احد لکھوایا۔ اس کے دور خلافت میں ہرقلہ اور مصیصہ رومیوں سے فتح کیا۔ عبدالملک کے زندگی میں ہی اسکا بھائی اور ولی عہد عبد العزیز بن مروان جو مصر کا گورنر تھا انتقال کر گیا۔ اس لیے عبدالملک نے اپنے بیٹے ولید اور سلیمان کی ولی عہدی کے لیے تمام صوبوں سے بیعت لیے لیں۔ تیرہ برس حکومت کرنے کے بعد عبدالملک سنہ 85 ( 705ء) میں انتقال کیا۔