انسانی زندگی سب سے قیمتی شئے ہے جس کا دنیا میں کوئی متبادل نہیں لیکن بدقسمتی کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جموں کشمیر کی شاہراہوں پر آئے روز سڑک کے المناک حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں انسانی زندگیوں کا اتلاف تیزی کیساتھ جاری ہے۔ یہاں گزشتہ کئی برسوں سے غیر معمولی طور پر ٹریفک حادثات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ سڑک کے ان دلدوز حادثات میں مسافروں کی ایک بڑی تعداد جہاں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے وہیں ایک بڑی تعداد اُن مسافروں کی بھی ہیں جو ان حادثات کے ہتھے چڑھ کر عمر بھر کیلئے مضروب ہوگئے۔ ان حادثات کی روکتھام کیلئے نہ صرف سنجیدگی کیساتھ لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے بلکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو اس حوالے سے روڑ سیفٹی ایکٹ رولز کو بھی فوری طور پر نافذکرنا چاہیے۔ ادھر لیفٹیننٹ گورنر کی سربراہی میں ماضی قریب میں کئی اہم میٹنگیں منعقد ہوئیںجن میں روڈ سیفٹی کے مختلف پہلوئوں پر غور و فکر کیا گیا۔ نیز سڑک حادثات کو روکنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو ترجیحات میں شامل کرنے پر بھی زور دیا گیا۔ ان نشستوں میں واضح کیا گیا کہ محکمہ ٹریفک اور ٹرانسپورٹ افسروں کو اپنے فرایض منصبی کی انجام دہی کے دوران یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ سڑک حادثات کے لئے جو بنیادی وجوہات ہیں ان کو دور کیا جائے تاکہ حادثات کی رفتار کو کم کیا جاسکے یا ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے حادثات کی مکمل طور پر روک تھام ہوسکے۔لیفٹیننٹ گورنر نے ٹریفک حکام کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ دیکھیں کہ کہیں از خود کوئی ڈائیور شن نہ لگایا گیا ہو۔کسی نے سڑک تو نہیں کاٹی وغیرہ وغیرہ۔لیکن یہ بات سب جانتے ہیں کہ ٹریفک حادثات کی کتنی وجوہات ہوسکتی ہیں ایک ہو تو بتائی جاسکتی ہے یہاں تو درجنوں وجوہات ہیں جو حادثات کا باعث بن جاتی ہیں۔سب سے بڑی اور اہم وجہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں قرار دی جاسکتی ہیں۔یہ بات سب لوگ اور خاص طور پر گاڑیاں اور دو اور تین ویلر چلانے والے گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات کو سمجھنی چاہئے کہ بنیادی طور پر ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی قرار دی جاسکتی ہے۔کیونکہ اگر گاڑیاںچلانے والے مکمل طور پر ٹریفک قوانین پر عمل کریں گے تو حادثات کی تعداد بہت کم بلکہ یوں کہنا ٹھیک ہوگا کہ نہیں ہونے کے برابر ہوسکتے ہیں۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں تقریباً 95فی صد لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔مسافر گاڑیوں کے ڈرائیور اوور لوڈنگ کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ جہاں جی چاہے گاڑیاں بیچ سڑک پر کھڑی کرکے سواریوں کو اٹھاتے ہیں۔یہ شہر و گام کسی بھی جگہ اس بات کا مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔دو وہیلر چلانے والے تو کبھی بھی ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرتے ہی نہیں۔ان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی ہے کہ اوور ٹیکنگ کہاں سے کرنی ہے اور یہ لوگ کبھی گاڑی کے دائیں جانب تو کبھی بائیں جانب انتہائی تیز رفتاری سے نکل جاتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس طرح حادثات رونما ہوتے ہیں۔چونکہ ان کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے اسلئے وہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے ہیں کہ وہ کس طرح اوور ٹیکنگ کرتے ہیں۔دوسرا اہم مسئلہ کرتب بازی کا ہے نوجوان موٹر سائیکل سوار اکثر کرتب بازی کا مظاہرہ کرکے موت کو دعوت دیتے ہیں۔الغرض اعلیٰ حکام کو اوّلین فرصت میں اس بات کی اُور توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ روڈ سیفٹی قوانین کو زمینی سطح پر کیسے نفاذ کیا جائے اور کس طرح سڑکوں پر ہورہے حادثات میں ضائع ہونیوالی انسانی جانوں کو تحفظ بخشا جائے۔