وادی کشمیر کے بازاروں میں کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے صارفین کے اندر قوت خریداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران کشمیر کے ہر بازار میں موجود دوکانداروں کا جائزہ لیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ خریداری میں بے تحاشہ کمی آگئی ہے۔ بعض عناصر اسے کووڈ وبا کے نتیجہ میں معاشی نقصان سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ بعض دیگر وجوہات گردانتے ہیں لیکن مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ کووڈ وبا نمودار ہونے سے قبل بھی وادی کشمیر کے بازار مہنگائی سے متعلق بام عروج پر تھے۔ گزشتہ کئی برسوں میں وادی کشمیر کے مارکیٹ خون کے آنسو رونے پر مجبور ہیں جبکہ صارفین اشیاء خریدنے سے قاصر ہے۔ محض روزانہ استعمال ہونیوالی اشیاء کو ہی لوگ ترجیح دیکر خریداری کرتے ہیں کیوں کہ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر ہونے کی وجہ سے عام صارفین کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ سبزی، میوہ جات، گوشت، مرغ، انڈے سمیت دیگر اشیاء کی قیمتیں ہر گزرتے دن آسمان کو چھورہے ہیں اور مجبور صارفین کو انتظامیہ کی ناک کے سیدھ میں دو دو ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے جس پر عوامی حلقے حیران ہیں۔ انتظامیہ اور دیگر اعلیٰ حکام اگر چہ بار بار اس بات کا دعویٰ کرتے تھکتے نہیں ہے کہ وہ نرخ ناموں کو قابو میں رکھنے کیلئے آئے روز مارکیٹ چکنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن زمینی حقائق بالکل برعکس ہے۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھوگئی ہوں بلکہ اس طرح کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے تاہم ملوث عناصر کی سرکوبی میں غفلت برتنے کی وجہ سے یہ معاملہ آئے روز سامنے آرہا ہے۔ محکمہ اُمور صارفین و عوامی تقسیم کاری اشیاء کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکا ہے کیوں کہ جو ریٹ لسٹ محکمہ کی جانب سے شائع کی جاتی ہے وہ بس دکانات پر آویزان دیکھا جاسکتا ہے۔عوام کی جانب سے ہزاروں مرتبہ شکایات کے بعد بھی محکمہ اُمور صارفین اس معاملے میں کوئی قدم اُٹھانے میں ناکام ہوا ہے۔ہماری بحیثیت قوم یہ بدقسمتی رہی ہے کہ جب بھی یہاں حالات موسمی اعتبار سے تبدیل ہوتے ہیں تو بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ایک ایسے دور میں جب انتظامیہ شفاف اور جوابدہ ہونے کا دعویٰ کررہی ہے، تقاضا یہ ہے کہ سرکاری دفاتر سے باہر نکل کر عام لوگوں کی مشکلات کا جائزہ لیا جائے اور اُن مشکلات کو دور کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔ عوام جن مصائب و مشکلات کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے ، اُن سے چھٹکارا دلانے کیلئے اعلیٰ حکام کو ترجیحی اقدامات اُٹھانے چاہیے۔ متعلقہ محکمہ کو نہ صرف اس معاملہ میں جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے بلکہ سرکاری سطح پر جاری نرخ نامہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے زمینی سطح پر گرائونڈ ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے دوکانداروں اور ریڑے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے جو ناجائز منافع خوری میں نہ صرف ملوث ہیں بلکہ اس گورکھ دھندے کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہیں۔ خاطی عناصر کیخلاف جتنی جلد کارروائی ہوگی، اُتنا ہی سماج کی فلاح و بہبود کیلئے بہتر رہے گا۔ محکمہ اُمور صارفین کا جمود بھی جس قدر جلدی ٹوٹ جائے گا ، اُتنا ہی بازاروں میں صارفین کیساتھ انصاف پر مبنی سلوک کیا جائے گا، ورنہ ہر بار کی طرح لوگوں کی فریاد محض کانوں سے ٹکرا کر واپسی کی راہ اختیار کرکے ناجائز منافع خوروں کے صارفین کش حوصلے بلند ہوں گے، جو سماج کے اجتماع مفاد کے بالکل خلاف ہے۔