ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھا جائے تو دنیا میں آج تک جتنی بھی قومیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں اُن کے پیچھے قوم کے مجموعی کردار کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح جن قوموں نے اپنی سماجی و اجتماعی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا مظاہرہ کیا ، اُن کا دنیا میں نہ صرف نام و نشان مٹ گیا بلکہ آج کی تاریخ میں اُن قوموں کا کہیں پر بھی وجود یا تذکرہ نہیں ہے۔ قومیں ہمیشہ لوگوں کے اجتماعی کردار سے بنتی ہیں۔ قوم جتنی حساس اور زیرک ہوں، اُتنا ہی سماج او راس کے لوگوں کیلئے بہتر ہے۔ قوم کا اثاثہ ہرفرد بشر کا اثاثہ قرار پاتا ہے، اسی لئے سماج کے ہر فرد کو اپنے قومی اثاثوں کے تئیں نہ صرف فکر مند ہونا چاہیے بلکہ اُن کی دیکھ بال اور رکھ رکھائو کیلئے بھی سماج کے ہر فرد کے اندر حساسیت پائی جانی چاہیے۔ قوم کشمیر کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ قوم کئی وجوہات کی بنیاد پر دنیا بھرمیں معروف و مشہور ہے۔یہاں کی تہذیب، تمدن، ورثہ، ثقافت، مہمان نوازی ، ذات ‘ پات‘ اور مسلک سے بالاتر ہوکر انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ‘کشمیری قوم کاسرمایہ افتخار ہے جس کیلئے دنیا بھر میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے جموں کشمیر سے باہر کے لوگ جب بھی یہاں سیر و تفریح کی غرض سے وارد ہوتے ہیں ، تو وہ نہ صرف یہاں کے دلفریب اور خوبصورت قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ اس سے کئی درجہ وہ مقامی لوگوں کی شفقت، مہمان نوازی، ہمدردی اور بھائی چارگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ ایسے اطوار جس قوم کے اندر پائے جاتے ہوں، تو آج کے اس پرفتن دور میں جتنا بھی خراج تحسین اس قوم کو پیش کیا جائے وہ کم ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بھی ایسی بے شمار ذمہ داریاں ہیں جو سماج کیساتھ وابستہ ہے۔ ان ذمہ داریوں کے تئیں لوگوں کی حساسیت اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنا سماج کے مجموعی فائدہ کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ مثلاً سماج کا ہر فرد بشر قومی اثاثوں کے تئیں کتنی حساسیت رکھتا ہے، اُن کی حفاظت اور بقا کیلئے اُن کے اندر کتنی تڑپ ہے، یہ ایسی لازمی چیزیں ہیں جن سے معمولی غفلت بھی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ قومی اثاثوں کی حفاظت، اُن کی بقا اور اُن کے تئیں فکر مندی کا احساس سماج کے ہر فرد بشر کے اندر ضروری ہے۔ سماج کے بہتر مستقبل کیلئے نہ صرف افرادی قوت کا معیاری ہونا ضروری ہے بلکہ قومی اثاثوں کی حفاظت کرنا بھی ترجیحاتی اُمور میں شامل ہیں۔ یہ اثاثے معمولی نوعیت ہی کے کیوں نہ ہوں؟ بہر حال حفاظت کے معاملہ سے پہلو تہی کا مظاہرہ صحیح نہیں کہلائے گا۔انسان کا حقیقی منصب وجود اور بعد ازاں دنیا سے رخصتی تک اس کی سماج کے تئیں کیا کیا ذمہ داریاں ہیں‘ دین اسلام اس کی طرف ہمیں بھر پور رہنمائی کرتا ہے۔ جب اثاثوں کا تعلق پورے سماج او رقوم کیساتھ وابستہ ہوتواُن کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ حال ہی میں شہر سرینگر کے اندر تجدیدی اُمور کے تحت شہری علاقوں میں ماحولیات کو آلودگی سے پاک رکھنے کیلئے سائیکل سروس کا آغاز کیا۔ اس سروس کا اگر احتیاط کیساتھ فائدہ اُٹھایا جاتا تو بلاشک ور یب لوگوں کی آسان نقل و حمل کیلئے یہ ایک بہترین قدم تھا۔ لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سروس شروع ہونے کے چند روز بعد ہی کئی مقامات پر ان سائیکلوں کے یا تو پرزے چوری کئے گئے یا پھر ان کے ڈیجیٹل لاک توڑ ڈالے گئے تھے۔ اس معاملہ میں ملوثین جو بھی ہوں، لیکن عوام کو چاہیے کہ قومی اثاثوں کے تئیں اپنی مجموعی ذمہ داری کو پورا کرے اور جس طرح وہ اپنے گھریلو اشیا کی خوب دیکھ بال کرتے ہیں‘ اُسی طرح وہ قومی اثاثوں کے تئیں بھی فکر مندی کا مظاہرہ کریں۔ اسی میں قوم کی اجتماعی بھلائی مخفی ہے اور ان ہی اُمور کے ذریعہ قوم کی افرادی قوت کامعیار کو پرکھا جاتا ہے۔ کشمیرامانت داری کے حوالہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، اسے نقصان پہنچانے کی کوششوں سے گریز کیا جائے۔