خالدہ بیگ(پونچھ)
خوراک انسانی زندگی میں انتہائی اہم رکھتی ہے۔ اچھی خوراک ایک اچھے اور صحتمند انسان کو جنم دیتی ہے۔ انسانی زندگی میں خوراک کا ایک اہم کردار ہے۔ ماں کے بطن میں ہی بچے کی خوراک کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگر ماں اچھی خوراک کا استعمال کرتی ہے تو بچے کی صحت بھی بہترہوتی ہے۔ناقص خوراک کی وجہ سے بچوں، خواتین، بزرگوں نیز تمام عمر کے لوگوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بچہ بڑا ہونے لگتا ہے اسکی خوراک اچھی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کئی ایک بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔خالق کائنات نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی خوراک کا بھی انتظام کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے جس کی بنا پر وہ اچھی خوراک کا استعمال کرسکیں۔اسی تناظر میں حکومت کی جانب سے آنگن واڑی مراکز کا قیام عمل میں لایا گیاتاکہ غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین، بچوں اور دوشیزاؤں کے لئے حکومت کی جانب سے خوراک اور ادویات ان آنگن واڑی مراکز سے فراہم کئے جائیں۔ لیکن ان آنگن واڑی مراکز کا فعال نہ ہونا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ان دور دارزعلاقاجات میں مقیم خواتین کو بھرپور خوراک نہیں ملتی ہے۔ یوں بھی دیہی علاقاجات میں تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے خواتین اپنی صحت کے ساتھ انصاف نہیں کرپاتیں کیونکہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری خواتین اچھی اور بہتر خوراک کا انتظام نہیں کرپاتیں کیونکہ انہیں زندگی کی قیمتی ہونے کا اس قدر احساس نہیں ہوتا جتنا ایک تعلیم یافتہ خاتون اپنی صحت پر توجہ دیتی ہے۔ وہیں غربت نے بھی ان خواتین کی کمر توڑ کر رکھی ہے۔ یہ خواتین اپنے بچوں کی پرورش اور گھریلو کاموں میں اس قدر مصروف ہوتی ہیں کہ انہیں اپنی صحت کا بالکل بھی خیال نہیں رہتا ہے۔
آنگن واڑی سنٹر کی مدد سے نوزائدبچوں، دوشیزاؤں، اور حاملہ خواتین کو خوراک فراہم کی جاتی ہے۔لیکن دیہی علاقاجات تک یہ خوراک اس لئے نہیں پہنچ پاتی کیونکہ وہاں سڑکوں کا کوئی مکمل رابطہ نہیں ہے۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے وقت پر ان آنگن واڑی مراکز میں یہ راشن نہیں پہنچ پاتا۔جہاں ملک کے دیگر حصوں میں آنگن واڑی مراکز مکمل طور پر خواتین کے لئے فعال نہیں وہیں جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کے دور دراز علاقاجات میں بھی آنگن واڑی مراکزفائدہ مند نہیں نظر آرہے ہیں۔ جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں ”آئی سی ڈی ایس“ کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع پونچھ میں کل1408 آنگن واڑی مراکز ہیں۔ جن میں حویلی میں 228، منڈی میں 266، سرنکوٹ 303، بفلیاز 147، مہنڈر 346، بالاکوٹ 118 آنگن مراکز ہیں۔ جس کا دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ تمام مراکز فعال ہیں۔اس سلسلے میں ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی سے تعلق رکھنے والی نسیم اختر،عمر 35 سال کہتی ہیں کہ میں پانچ بچوں کی ماں ہوں۔ مجھے صرف ایک بار آنگن واڑی سنٹر سے چنے فراہم کئے تھے۔اس کے علاوہ میرے بچوں کو کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ہم نے سنا تھا کہ چھوٹے بچوں کو آنگن واڑی سنٹر میں تعلم دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے آنگن واڑی مرکز میں ہمیں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ایک اور خاتون رشیدہ اختر، عمر 28 سال کہتی ہیں کہ ”میں دو بچوں کی ماں ہوں۔ مجھے اور میرے بچوں کو آج تک کچھ نہیں دیا گیا۔“ پوشن ابھیان ایک مرکزی اسپانسر شدہ اسکیم ہے جسے ریاست کے تمام اضلاع میں سال 2018 میں نافذ کیا گیا ہے۔ پوشن ابھیان کا ایک اہم ستون ہدف آبادی پر غذائیت سے متعلق تمام اسکیموں کا یکجا ہونا ہے۔ خاص طور پر اس کا مقصد 0سے6 سال کے بچوں، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کی غذائی حالت میں ایک مقررہ وقت میں بہتری لانا ہے۔لیکن یہاں کے دیہی علاقاجات کی خواتین ان اسکیموں سے نا آشنا ہیں کیونکہ ان تک مرکز کی جانب سے فراہم کردہ اسکیمیں نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ رشیدہ اختر مزید کہتی ہیں کہ ”صرف وہیں خواتین اپنا حق حاصل کرتی ہیں جنہیں اس تعلق سے جانکاری ہوتی ہے۔ ہم غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارتی ہیں۔ ہمیں ان سب چیزوں کی جانکاری نہیں ہے۔“
آنگن واڑی سے منسلک کردہ ایک اور اسکیم ’اسکیم فار ایڈولیسنٹ گرزیعنی ایس اے جی‘ جسے جوانی کی عمر میں قدم رکھنے والی لڑکیوں کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے سال 2010 میں شروع کیا گیا تھا۔ آئی سی ڈی ایس کی ویب سائٹ کے مطابق اس اسکیم کو سال 2018 میں ضلع پونچھ میں نافظ کیا گیا تھا۔ جس میں 10 سے 19 سال کی لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کے حوالے سے خصوصی تعلیم فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ لیکن جب اس اسیکم کے متعلق زمینی سطح پر غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ دیہی علاقاجات میں مقیم دوشیزایں اس تعلق سے بالکل بے خبر ہیں۔ تحصیل سرنکوٹ کی سکونتی رابعہ(نام تبدیل) کہتی ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ آنگن واڑی سنٹر میں ہمارے لئے کیا فراہم کیا جاتا ہے؟ مجھے یا میری سہیلیوں کو کبھی بھی نہ تو آئرن کی گولی فراہم کی گئی اور نہ ہی ہمیں ہماری صحت کے متعلق کچھ بتایا گیا۔ وہیں منڈی سے تعلق رکھنے والی سائرہ کوثر کہتی ہیں کہ ”ہمارے گاؤں میں ایک آنگن واڑی سنٹر ہے۔ میری عمر 17 سال ہوچکی ہے لیکن آج تک مجھے اس سنٹر سے کوئی فائدہ نہیں ملا۔“ اس تعلق سے منڈی کی رہائشی آنگن واڑی ورکر تاج بیگم سے جب بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف بسکٹ اور دال فراہم کی جاتی ہے وہ ہم بچوں اور انکی ماؤں تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ بھی فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔جو کچھ ہمیں دستیاب ہے وہ ہم خواتین تک پہنچاتے ہیں۔ جب ملتا ہی نہیں ہے تو ہم کیا اور کہاں سے دیں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جن خواتین کو ان مراکز میں تعئنات کیا گیا ہے۔ وہ بھی تعلیم یافتہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ دوشیزاؤں کو مکمل تعلیم اور انکی صحت کے حوالے سے اور ماہواری کے شروع ہونے وغیرہ کے تعلق سے جانکاری فراہم نہیں کر پاتیں ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی متعدد بیماریوں کی شکار بن جاتی ہیں۔مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم یافتہ لڑکیوں اور عورتوں کو ان مراکز میں تعئنات کرے اور باضابطہ طور پر ان اداروں میں مفت کمپ منعقد کروائے جائیں تاکہ حاملہ خواتین اور دوشیزاؤں کے ساتھ ساتھ پہلی بار ماں بننے والی عورتوں کو انکی غذایت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ جس سے وہ خواتین اچھی خوراک کا استعمال کرکے صحتمند بچوں کو جنم دے سکیں کیونکہ ایک صحتمند بچہ ہی ایک صحتمند بھارت کی تعمیر میں کردار ادا کر سکتا ہے۔(چرخہ فیچرس)