ڈولی گڈیا
کپکوٹ، اتراکھنڈ
[email protected]
بروقت تیاریوں نے ہمیں سمندری طوفان ’بیپرجوئے‘ سے ہونے والے نقصان سے تو بچا لیا لیکن اس نے بہت سے سوالات چھوڑے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ماحول غیر متوازن ہو رہا ہے؟ شدید گرمی، بے موسمی بارشیں، طوفان، خشک سالی، ژالہ باری اور جنگلات کی آگ جیسے واقعات بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کم از کم اتراکھنڈ کے گھنے جنگلاتی پہاڑوں میں لگی آگ یہی پیغام دے رہی ہے کہ اس طرح کے واقعات ماحول کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم انسان اس کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیونکہ اتراکھنڈ کے جنگلات میں لگنے والی زیادہ تر آگ انسانوں کی لگائی ہوئی ہے، جسے اکثر لوگ غیر قانونی طور پر لگاتے ہیں۔ یہ موسم میں گھاس کی بہتر نشوونما کو فروغ دینے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کئی بار جنگل میں آگ لگنے کے لیے لوگوں کی لاپرواہی بھی ذمہ دار ہوتی ہے، جیسے سگریٹ پینے کے بعد جلتی ہوئی سگریٹ یا بیڑی کو ادھر ادھر پھینکنا، جس کی وجہ سے سوکھی گھاس میں جلدی آگ لگ جاتی ہے اور پورا جنگل کچھ ہی دیر میں تباہ ہو جاتا ہے۔ اس آگ کی وجہ سے گاؤں والوں کو کافی معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ لوگوں کو ایندھن، لکڑی، خوراک اور پھلوں کی چیزیں جنگل سے ہی ملتی ہیں۔اس کی ایک مثال اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع کے کپکوٹ بلاک سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پوتھنگ گاؤں ہے۔ جو پہاڑوں کی وادیوں میں واقع ہے۔ یہاں کا قدرتی حسن دیکھتے ہی بنتا ہے۔ یہ گاؤں پہاڑوں کی ہریالی اور پاکیزہ ہوا کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس گاؤں کی آبادی 2 ہزار سے زائد ہے۔ لیکن قدرتی وسائل سے مالا مال اس گاؤں کو خود انسانوں کی نظر لگ گئی ہے۔ جنگلات میں لگاتار آگ لگنے سے نہ صرف لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے بلکہ جانور بھی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ جنگلات سے اٹھنے والا دھواں لوگوں کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ ایک طرف جہاں اس سے لوگوں کی صحت متاثر ہورہی ہے وہیں دوسری طرف دھوئیں سے ماحول بھی خراب ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ گاؤں دھوئیں کی چمنی بنتا جا رہا ہے۔
جنگل کی آگ سے پریشان، گاؤں کی ایک نوعمر پوجا کا کہنا ہے کہ ’جنگل کی آگ سے نکلنے والے دھوئیں کی وجہ سے پورا ماحول خراب ہو رہا ہے۔ ہمیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔ آگ لگنے کی وجہ سے پورے گاؤں پر دھند کی چادر چھا گئی ہے۔ لوگوں میں نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ جنگل کے درختوں اور پودوں میں لگی آگ کورونا کی وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔‘ گاؤں کی ایک اور نوجوان نیہا کا کہنا ہے کہ ’دھوئیں کی وجہ سے پورا جنگل تباہ ہو رہا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جنگل راکھ میں نہ بدل جائے۔‘ نیہا کے مطابق’دھویں کی وجہ سے صرف انسان ہی پریشان نہیں ہیں بلکہ جانوروں میں بھی ایک ایک کر کے کئی بیماریاں ڈیرے ڈال چکی ہیں ۔ ہمیں اس بیماری کا نام تک نہیں معلوم جو بیلوں میں پھیل رہی ہے۔ یہ بیماری آگ پر زیادہ گرمی کی وجہ سے ہورہی ہے۔ ‘گاؤں کی ایک 47 سالہ خاتون شانتی دیوی کا کہنا ہے کہ دھوئیں کی وجہ سے جانوروں کو چھوٹے چھوٹے دانے نکلتے ہیں اور پھر وہ پھٹ جاتے ہیں۔ جس کے بعد ان سے خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ آج کل دھان کی بوائی کا وقت ہے اور جانور بیمار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ نقصان زراعت کو ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ کھانا پکانے کے لیے لکڑی کی بھی قلت ہے۔ اس سے پہلے عورتوں کا ایک ریوڑ جنگلوں میں جایا کرتا تھا جہاں چارہ، پھول، پھل اور لکڑی وغیرہ آسانی سے دستیاب ہوتے تھے۔ لیکن اس سال جنگل کی آگ کی وجہ سے سب کچھ راکھ ہو گیا ہے۔ ایک اور خاتون نیہا دیوی کا کہنا ہے کہ ’پچھلے سال تک ہم اپنے مویشیوں کے لیے آسانی سے جنگل سے چارہ حاصل کر لیتے تھے۔ لیکن اب سبز گھاس کے بجائے صرف جلی ہوئی کالی زمین ہی نظر آ رہی ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ جانتے ہیں کہ جنگل میں آگ لگانے کے کیا نقصانات ہیں؟ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب انہیں قدرت سے کوئی لگاؤ نہیں رہا۔ جس جنگل کی وجہ سے ہم زندہ ہیں، آج لوگ اسے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر ہمارا ماحول صاف ستھرا ہو گا اور فطرت ہر طرف سے صاف ستھرا ہو گی تو ہی ہم صاف ستھرا ہوں گے اور بیماریوں کا خطرہ کم ہو گا۔‘
دوسری جانب گاؤں کی ایک 65 سالہ بزرگ کھکھوتی دیوی کا کہنا ہے کہ ”دراصل جنگل میں آگ صرف وہی لوگ لگاتے ہیں، جن کے گھر میں بہت زیادہ گائے، بھینسیں اور بکریاں ہوتی ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ جنگل کو آگ لگانے کے بعد جنگل میں نئی گھاس آئے گی، جس سے مویشیوں کو زیادہ چارہ ملے گا۔“ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی بار آگ لگنے کی بڑی وجہ خواتین کی سگریٹ نوشی ہوتی ہے۔ وہ چارہ یا لکڑی لینے جنگل جاتی ہیں اور پھر وہاں سگریٹ نوشی شروع کردیتی ہے۔ پھر وہ جلتی ہوئی ماچس کی تیلی یا بیڑی وہاں پھینک دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگی ہوئی ہے۔اس حوالے سے گاؤں کی سرپنچ پشپا دیوی کا کہنا ہے کہ ”پوتھنگ کپکوٹ بلاک کا سب سے بڑا گاؤں ہے، یہاں ہر ذات کے لوگ رہتے ہیں اور یہاں کے جنگل کا ہر طرح سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن وہی جنگل اور اس کے اصول کو لوگ آج توڑ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف جنگل سکڑ رہا ہے بلکہ آگ لگنے سے لوگوں کی صحت بھی بگڑ رہی ہے۔ آگ کی وجہ سے گاؤں میں فضائی آلودگی بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔شہروں کی طرح یہاں بھی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ جنگلات کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔جو نہ صرف قوانین فطرت کے خلاف ہے بلکہ اس سے انسانوں کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہو رہا ہے ۔لاعلمی اور بیداری کی وجہ سے لوگ انجانے میں جنگل کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔ان کو اس کا علم ہی نہیں ہے کہ اس کے نتائج کیا ہونگے؟
دراصل کئی بار انسان اپنے فائدے کے لیے فطرت سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے نہیں ہچکچاتا۔ جس کے نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دنیا میں تیزی سے بدلتا ہوا ماحول بھی اس بارے میں بار بار وارننگ دے رہا ہے۔ ترقی کے نام پر میدانی علاقوں اور اب پہاڑوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ اس سب کے درمیان اگر پہاڑی جنگلات میں لگاتار آگ لگنے کے واقعات کو بروقت نہ روکا گیا تو ہمیں کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ شعور کی کمی کی وجہ سے ہم خود اس کے ذمہ دار بن رہے ہیں۔ (چرخہ فیچر)