معراج زرگر۔
کچھ ہفتے پہلے ایک بچے نے امتحانات سے واپسی پر مایوسی کا اظہار کیا اور تاثر یہ دیا کہ اس کا پرچہ اچھا نہیں ہوا۔ اور وہ کامیاب نہیں ہوگا۔ پھر کئی دن تک وہ اللہ سے کامیابی کی دعائیں مانگتا رہا۔ میں نے جب اس طالب علم سے بات کی تو اس نے پورے وثوق سے کہا کہ امتحانی اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ Key کے مطابق وہ کامیابی کے لئے مطلوبہ نمبرات حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ میں نے جب اس سے یہ پوچھا کہ آپ کو جب معلوم ہے کہ آپ مطلوبہ نمبرات حاصل نہیں کر پائے تو آپ خود کو ایک آزمائش اور بے جا مشقت سے کیوں گذار رہے ہو اور ایک چمتکار یا معجزے کی فکر میں کیوں ہو۔ میں نے اسے اللہ سے تعلق اور انسانی استطاعت کے بارے میں سمجھایا اور وہ اس چیز کو سمجھ گیا اور خود کو ہلکا محسوس کرنے لگا۔
اسی طرح چند دن پہلے سورج چند گھنٹے کے لئے نمودار ہوا تو میرے آفس میں موجود ایک علاقے کی وفد نے خوش ہوکر کہا کہ سورج کیسے نہ نکلتا, ہم نے جو پچھلے پانچ دن میں 5 بیل ذبح کرکے بھنڈار کیا اور سارے لوگوں نے جم کر کھایا۔ وہ ابھی آفس میں ہی تھے کہ سورج پھر چھپ گیا۔ گلوبل وارمنگ اور موسمی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے اور ایک بہت بڑا بحران ہے۔ یہ سری پایے کی تہری یا بھنڈار سے دور نہیں ہوگا۔
دینی, سماجی, اخلاقی اور معاشرتی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی مشکلات, سماجی خرابیوں اور اخلاقی گراوٹوں کا ازالہ ہم چند عبادات کے زریعے حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے پھر وہ عبادات انفرادی ہو یا اجتماعی۔ ہمارا تعلق کائنات اور کائنات میں موجود چیزوں کے ساتھ ایک سطحی اور نا سمجھی کا تعلقق ہے۔ رٹے اور حافظے میں رکھی ہوئی چیزوں سے ہم اپنا تعلق ایک Omnipresent اور شاندار اور پاورفل خالق سے جوڈنے کی کوشش میں ہیں۔ اور اس تعلق کو کچھ میکنیکل عبادات اور رسومات سے مزین کرکے سمجھتے ہیں کہ اگلے لمحے ہمارا ہر ایک انفرادی, سماجی اور معاشرتی مسئلہ حل ہوگا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔
بچپن سے ہمیں ایک ایسے اللہ کا تعارف کرایا جاتا ہے جو چمتکاری ہے۔ ایک عظیم الشان مالکِ کُل کی پوری اسکیم اور وجہ وجودِ کائنات کو کچھ گھسی پٹی روایات, رسومات اور خرافات کا پلندہ بنایا گیا ہے جو اذہان و قلوب میں اس طرح بیٹھ گیا ہے کہ اب ہر بندہ اپنے ہر مسئلے کو, چاہے وہ گھر میں گائے بکری کا دودھ کی کمی ہو یا ملک و قوم پر مسلط داخلی, خارجی یا آفاتی کوئی بلا ہو, کسی چمتکار کے زریعے ہی حل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ اگر جبّار و کارساز خداوند قدوس کے ساتھ ہمارا رشتہ ایسا ہے تو پھر وہی جبار و کارساز اللہ ہمیں عذاب سے بچائے۔
ہمارے رہبر اعظم ﷺ نے اپنے صحابہ کو ایک ایسے عظیم الشان خداوند قدوس کا تعارف کرایا تھا جو مسلسل عمل اور جان گسل محنت کے بعد ہی کسی معاملے کا حل فراہم کرتا ہے۔ تکالیف اور مصائب سے گذر کر ہی سماجی, معاشرتی اور معیشتی مسائل ٹھیک ہو سکتے ہیں۔
ہمارا انفرادی اور اجتماعی وجود ایک مہلک کینسر کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ جس کا علاج نا گزیر ہےاور جب کینسر کا آخری اسٹیج ہو تو پھر پہلے کیمو تھیراپی اور ریڈیو تھیراپی کا بندوبست کرنا لازمی ہے اور بعد میں نِکہ مولوی کی تعویذ کا بندوبست کرنا ہوگا, یا سری پایوں کی تہری کسی درگاہ پر لے جانی ہوگی۔ اگر خدانخواستہ کسی انسان کو گولی لگے یا کلہاڈی کا گہرا زخم آئے تو پھر جھاڑ پھونک کارآمد نہیں ہوگی بلکہ آپریشن کرانا ہوگا یا زخم کو سی کر انجیکشن وغیرہ بھی لگانے ہونگے۔
جس خطرناک اور انتہائی حالت تک بگڑے ہوئے سماجی, اخلاقی, معاشرتی ڈھانچے کا ہم حصہ ہیں اس کو وہم, وسوسے, نا اہلی, لچر پن, بھانڈ پن, مسخری, شور و غل, تفریح تماشے, دین بے زاری وغیرہ کی زہریلی پھپھوندی نے نگل لیا ہے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ گاڑی میں اور موبائل پر چند منٹ کسی خطیبِ اعظم کا دھواں دار خطبہ لگانے سے ہر بیماری کا علاج ہوگا تو یہ ہماری بھول ہے۔ سماجی اور معاشرتی بگاڑ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب وعظ و نصیحت سے زیادہ غمگساری اور چارہ سازی کی ضرورت ہے۔
یونیسکو کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2003 کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے کم پڑھتا ہے۔ اور ایک یورپین ایک سال میں اوسطاً پینتیس کتابیں پڑھتا ہےجبکہ ایک اسرائیلی شہری ایک سال میں اوسطاً چالیس کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔
عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2011 اس سے بھی بدترین تفصیلات دکھا رہی ہے۔ اسکے مطابق ایک ایوریج یورپین سال میں دو سو گھنٹے مطالعہ کرتا ہے۔ جبکہ ایک مسلمان اور عرب ایک سال میں اوسطاً چھ منٹ مطالعہ کرتا ہے.
غریب سے غریب تر اور امیر سے امیر تر انسان, یعنی ہر ایک کے گھر میں اس وقت بہترین سائنسی ایجادات, اور عیش و آرام اور سہولت کے سارے سامان میسر ہیں۔ پروفیسر, مولوی, علامہ, ڈاکٹر, استاد, صحافی وغیرہ وغیرہ سب کے سب ہر ایجاد اور ہر سہولت سے لطف اٹھا رہا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان ساری ایجادات اور سولیات میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ ہماری شیو بنانے والا بھی اب ہم میں سے نہیں اور ہماری بیٹیوں کی مہندی لگانے والا بھی کرایے کا ہے۔ آئی فون اور سیٹیلائٹ ٹی وی کی بات ہی نہ کیجئے۔
ہم کیا سمجھتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کا تدارک کرنا, آرگن ٹرانسپلانٹ میں کوئی زبردست پیش رفت دکھانا دینداری نہیں۔ کیا بھیڑوں کی ایک شاندار نسل تیار کرنا اور پولٹری مصنوعات میں خود کفیل ہونا عین مسلمانی نہیں۔ کیا آرٹیفیشل انٹیلجنس اور ڈیٹا کولیکشن ہمارے ایمان پر کوئی ڈاکہ ڈالنے سے تعبیر ہے۔ کیا دریاؤں اور سمندروں میں آبدوزیں چلانا سر پہ عمامہ رکھ کر نہیں چلائی جاسکتی۔ کیا مریخ اور چاند پر پہنچ کر ہم کافر ہوجائیں گے۔ ہم کب تک چمتکار کے منتظر رہیں گے۔ ہم کب تک تقریروں, جلسے جلوسوں, سیمیناروں, نعرہ بازی, چھکر تہ رؤف, لڈی شاہ, مشاعروں, بھانڈ بازی وغیرہ میں مست رہیں گے۔ کیا عمل اور محنت کا میدان ہم سے چھن گیا ہے۔ برابر چھن گیا ہے۔ ہمیں نحوست اور وہم پرستی کے جراثیم نے چاٹا ہوا ہے۔
سماجی, معاشرتی, اخلاقی اور معیشیتی مسائل کا حل عمل اور جہدِ مسلسل میں ہی مضمر ہے۔ محنت اور کارکردگی کا کوئی نعم البدل نہیں۔ رٹے اور خودغرضی کی دعاؤں اور سری پایوں کی تہری سے نہ مرغا انڈا دے سکتا ہے اور نہ کاغذ کی کشی آبدوز بن سکتی ہے۔ اور نہ ہی کسی چمتکاری بابا کی جھاڈ پھونک سے مٹر چلغوزے بیجنے والا سائنس دان, فلاسفر, مورخ, فقیہہ, شیخ الحدیث بن سکتا ہے۔ بہت دیر ہوچکی ہے۔ آئیے۔۔۔۔عقل کے ناخن لیں اور سر سے نحوست اور بد عقیدگی کے گندے بال صاف کریں۔
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا