ریحانہ کوثر(منڈی پونچھ)
کسی بھی علاقع کی ترقی میں سڑک کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں اکثر دو گاؤں کو جوڑنے کے لئے رابطہ پل بنا ہوتا ہے۔ اسے علاقع کا لائف لاین بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔لیکن جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلاک ساتھرا میں ایک لوہے کا رابطہ پل عوام کے لئے پریشانیو ں کا سبب بنا ہوا ہے۔ مقامی لوگوں اور متعلقہ سرپنچ کے مطابق اگرچہ اس معاملہ کو کئی بار انتظامیہ کے سامنے اٹھایا گیا تا ہم اس پُل کی خستہ حالت آج بھی جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے مقامی باشندہ بشارت حسین شاہ عمر تیس سال،بتاتے ہیں کہ یہ پُل سات گاؤں کو شہر کے ساتھ جوڑتا ہے۔ گاؤں کے لوگ اسی لوہے کے پل سے ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کے لئے منڈی یا پونچھ کا رخ کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں اور متعلقہ سرپنچ کے مطابق اگر چہ اس معاملہ کو کئی بار انتظامیہ کے سامنے اٹھایا گیا۔ تاہم اس پُل کی خستہ حالت آج بھی جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔گاؤں والوں کے پاس یہ ایک واحد پُل ہے جس سے یہ لوگ ہر روز گزرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ان علاقوں میں کوئی بیمار ہوجائے تو مریض کو چارپائی پر اٹھا کر اسی پل سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس جھولہ پُل کی ابتر حالت سے عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گاؤں والوں کے مطابق2014 میں جو سیلاب آیا تھا جس میں انسانی اور مالی نقصان کافی ہوا تھا۔ اس میں اس رابطہ پل کو بھی کافی نقصان ہوا تھا۔رابطہ راستے اور پُل ٹوٹ کر بہہ گئے تھے۔ تمام راستے بند ہو گئے تھے۔ جسکے بعد انکو آج تک اچھے سے تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔یہاں کے لوگوں نے اپنی جیب سے پیسہ خرچ کر کے نالوں کے اوپر عارضی پُل بنایا ہے جو کسی بھی وقت گر سکتاہے۔اس سے انسانی جانوں کو بہت بڑاخطرہ ہے۔ میں آپکو بتاتی چلو کہ یہ پُل بلکل بوسیدہ ہو گیا ہے۔ لوگ بہت مشکل سے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اس پُل کے اوپر سے گزرتے ہیں۔
ایک مقامی خاتون گلناز اختر عمر پچیس سال،کہتی ہیں کہ”ہم نے کافی بار متعلقہ محکمہ سے گزارش کی کہ اس پل کو اچھے سے تعمیر کیا جائے تاکہ لوگوں کو مزید مشکلات سے دو چار نہ ہونا پڑے۔اس پل پر کبھی بھی کوئی بڑاحادثہ ہو سکتا ہے۔ اس پُل سے بڑی تعداد میں لوگ گزرتے ہیں۔ اسکولی بچوں کو یہاں سے گزرنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس پُل کے نیچے نالا بہت گہرا ہے۔پانی کا بہاؤ بہت تیز ہے ساتھ میں دو نالے اور بھی ہیں جنکے اوپر پُل کا نام و نشان تک نہیں ہے۔جب لوگ اس پل سے گزرتے ہیں تو پھر انکو ساتھ میں ہی دوسرا نالا پُل کے بغیر پار کرنا پڑتا ہے۔ جب بارش بہت تیز ہوتی ہے تو اس نالے سے پار کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔پل کی خستہ حالت کی وجہ سے اکثر بچے نالے کے اوپر سے گزرتے ہیں، جو بہت خطرناک ہے۔لیکن پھر بھی وہ ایسا کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کو حادثہ پیش آتا ہے تو اس کا ذمہ دار انتظامہ کون ہوگا؟ مقامی فریلانس جرنلسٹ شیراز احمد میر بتاتے ہیں کہ ”یہاں کی پوری آبادی ماہی گیر طبقہ سے وابستہ ہے اور لوگ کافی غریب ہیں۔اس جانب سرکار توجہ نہیں دے رہی ہے۔ہم نے اس سلسلے میں سرکار اور متعلقہ محکمہ کے افسران سے کافی بار گزارش کی کہ اس پل کو پختہ طریقے سے بنایا جائے لیکن ہماری بات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کو کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ پل کی خستہ حالت سے عوام کو کافی اندیشہ رہتا ہے کیونکہ اس کے نیچے سے ایک نہر بہتی ہے جس میں اکثرپانی کا بہاؤ کافی تیز رہتا ہے۔ کبھی حادثہ پیش آیا تو کافی نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ کافی بوسیدہ پُل ہے اس کے دونوں طرف کے بھاند کی دیواریں گرنے والی ہیں۔ جب اسکولی بچے یہاں سے گزرتے ہیں تو انہیں آنے جانے میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ والدین کافی ڈرے ہوئے رہتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ انتظامہ نے یہاں کے لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔وہ کسی بڑے حادثہ کا انتظار کر رہے ہیں تب جاکر کہیں ان کی نیند کھلے گی۔“
یہاں سے ہوکر گزرنے والے طالب علم افزا الطاف، علینہ، رتبہ اور راحت کا کہنا ہے کہ ”جب ہم اسکول جاتے ہیں تو ہمیں اس پُل کو پار کرنے کے لئے ایک دوسرے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہاں پانی کا بہاؤ بہت تیز ہے۔ہم یہاں سے آنے جانے میں بہت ڈرتے ہیں۔ تیز بارش میں ہم سب پریشان جاتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس گھر جانے کے لئے اس کے علاوہ کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔بارش کے مہنے میں کئی کئی دنوں تک ہم اسکول ہی نہیں جاتے جسکی وجہ سے ہماری پڑھائی چھوٹ جاتی ہے۔“کئی سالوں سے ہم لوگ یہاں ایک مضبوط پُل کی تعمیر کی مانگ کر رہے ہیں تاکہ ان پریشانیاں ختم ہوں لیکن آج تک کسی افسران کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ طلباء اور لوگوں کی یہی گزارش ہے کہ برائے مہر بانی اس پُل کی تعمیر کی جائے تا کہ لوگوں کو آنے جانے میں کسی بھی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اگر یہ ایسے ہی نظر اندازی کا شکار ہوتا رہا تو کہیں ایسا نہ ہو کے یہ پل کسی دن موت کا پل بن جائے۔(چرخہ فیچرس)