چند برس قبل وادیٔ کشمیر میں ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر ایک بحث و مباحثہ منعقد کیا گیا جس میں ماہرین نے ریاست کو ملک میں سیلاب کے خطرات والی تیسری بڑی ریاست قرار دیا جو کہ واقعی ریاستی عوام کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر ماہرین کے اظہار خیال کو جونہی کووریج حاصل ہوئی تو عوامی حلقوں کے اندر تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ہر ایک اس بات کیلئے متفکر دکھائی دیا کہ صورتحال پر کس طرح قابو پایا جائے۔ سیمینار میں ماہرین نے واضح کردیا کہ بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو ریاست جموں کشمیر میں ماحولیاتی توازن بڑے پیمانے پر بگڑنے کا احتمال ہے بہ الفاظ دیگر اگر ماحولیاتی توازن بگڑے گا تو لوگ ایسی صورتحال میں پھنس کر رہ جائیں گے جس سے باہر نکلنے کی راہ سجھائی نہیں دیگی۔ماہرین کے بقول ہمالیائی خطہ پوری دنیا میں پہاڑی نظام کا ایک پُرخطر علاقہ ہے۔اُن کے بقول جموںکشمیر ملک کی دیگر ریاستوں میں خطرے کی دہلیز پر موجود ہے تاہم انہوں نے صاف کیا کہ اگر وقت پر صحیح اور ٹھوس اقدامات کئے گئے تو تباہی سے بچاجاسکتا ہے۔ماہرین کا ماننا تھا کہ جنگلوں کی بے دریغ کٹائی اور ماحولیاتی تباہی عالمی تمازت یعنی گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجوہات ہے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ جنگلوں کی بے دریغ کٹائی سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہر تباہی کی بنیادی وجہ جنگلوں کا صفایا رہی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک برس گزرنے کے بعد بھی ہمارے جنگلوں کا صفایا دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ آئے روز وادی کے جنگلوں میں جنگل سمگلنگ کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں جس پر قابو پانا انتہائی مشکل معلوم ہورہا ہے۔اگر چہ ہمارے یہاں جنگلاتی اراضی اور یہاں سبز سونے کے تحفظ کی خاطر فارسٹ پروٹیکشن فورس بھی قائم ہے تاہم سبز سونے کی لوٹ ہنوز جاری ہے۔یہاں جنگلاتی اراضی کے ارد گرد رہائش پذیر آبادی کو جنگلات میں ہورہی بے دریغ کٹائی کو روکنے سے متعلق الرٹ رہنے کی ضرورت ہے تاہم بعض موصولہ اطلاعات کے مطابق وہ بھی بہتی گنگا میں ڈبکی لگانے میں ہی عافیت محسوس کررہے ہیں۔خدانہ کرے اگر جنگلات کا صفایا جاری رہا تو اس کا سب سے زیادہ خمیازہ انہی لوگوں کو ہی بھگتنا پڑیگا۔ سبز سونے کی لوٹ جاری رہنے سے یہ خدشات تقویت پاتے جارہے ہیں کہ جنگلی جانور جنگلاتی اراضی سے باہر بھی دراندازی کرسکتے ہیں جس کے بعد قریب آبادی کا جینا مشکل ہوجائیگا۔موجودہ صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح سے جنگلات کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے تو مستقبل قریب میں ریاست بھر میں ایک بڑی تباہی دستک دے سکتی ہے جس سے محفوظ رہنا پھر کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔یہاں کوئی مسیحا نہیں ہے جو ہمارے اس سبز سونے کی لوٹ کھسوٹ کو روکے اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کی سعی کرے۔ ریاستی عوام کو ایسی صورتحال میں آفات سماوی سے ہونے والی تباہی کیلئے ہمہ وقت تیاری کی حالت میں رہنا چاہیے۔ حال کی ایک سروے کے مطابق وادی میں 85فیصد جنگلات کا صفایا کیا گیا ہے اور اب صرف 15فیصدی جنگلات باقی ہے، اس پر بھی جنگل چوروں کی نظریں مسلسل ٹکی ہوئی ہیں جو ان بچے کھچے جنگلوں کا جلد صفایا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومت کو اس معاملہ میں ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔