ملک بھر کیساتھ ساتھ جموں کشمیر میں گزشتہ دنوں یوم آزادی کی 77ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس موقعہ پر ملک کے باقی حصوں میں جہاں لوگوں نے جوش وجذبہ کا اظہار کرتے ہوئے تقاریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو وہیں جموں کشمیر میں بھی 33سال بعد تقاریب کی جگہوں پر لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔اگرچہ جموں کشمیر کی سرکار نے یوم آزادی سے قبل ہی ایک سرکیولر کے ذریعہ سرکاری افسران اور ملازمین کو تقریبات میں شرکت کی ہدایت کی تھی، تاہم امسال سرکاری افسران و دیگر ملازمین کیساتھ ساتھ عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے تقریبات میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیتے ہوئے انجوائے کیا۔ سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم کا حال تو بالکل مختلف تھا۔ یہاں صبح سے ہی مرد و خواتین کی لمبی لمبی قطاریں اسٹیڈیم کے باہری دیوار کیساتھ اندر جانے کیلئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں یہاں مرد و خواتین کے علاوہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے بھی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے پورے ماحول میں ایک نیا رنگ بھردیا۔ اسی طرح وادی کے دیگر اضلاع اور قصبہ جات میں بھی صورتحال حوصلہ افزا رہی۔ یہاں پر بھی مرد، خواتین، نوجوان لڑکے، لڑکیاں، طلبہ و طالبات کیساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی لمبی لمبی قطاریں نظر آرہی تھی جنہوں نے یوم آزادی کے موقعہ پر انجام دی گئی سرگرمیوں کا نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ بہت سارے مقامات پر عام لوگ گانا گتے اور ناچتے نظر آئے۔ اس قسم کی صورتحال بالکل غیر معمولی ہے کیوں کہ 1990کے بعد وادی کشمیر میں شورش پیدا ہونے کیساتھ ہی یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت کرنا عام لوگوں کیلئے انتہائی مشکل کام بن گیا تھا۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے یہاں منعقدہ تقاریب میں محض گنے چنے سرکاری ملازمین ہی شریک ہوا کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر مقاما ت پر صرف فورسز اہلکار ہی تقاریب کے دوران جھنڈا لہراتے اور پریڈ پر سلامتی لیتے نظر آتے تھے۔ تاہم امسال صورتحال نے جس چیز کا مشاہدہ کرایا وہ بالکل غیر معمولی نوعیت کا تھا۔ حکومت کے بقول دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں نمایاں تبدیلیاں آگئی جن میں ملی ٹنسی کے واقعات میں کمی، سڑکوں پر سنگ بازی اور ہڑتالی سیاست کا خاتمہ، سیاحتی دبائو میں اُبھال شامل ہیں۔ حکومت کے مطابق05اگست2019کو جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کا خاتمہ کرتے ہوئے یہاں تعمیر و ترقی اور امن و آشتی کیلئے راہ ہموار کی گئی کیوں کہ دفعہ 370کے موجود رہتے جموں کشمیر میں اس نوعیت کی سرگرمیاں ایک خواب ہی تھے جن کا شرمندۂ تعبیر ہونا محال معلوم ہوتا تھا۔ تاہم دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جس طرح جموں کشمیر کی زمینی صورتحال میں ایک ٹھوس بدلائو دیکھنے کو مل رہا ہے ، اُس سے کوئی ذی حس انکار نہیں کرسکتا۔ یہاں تعمیر و ترقی کے نئے دروازئے کھولے گئے، شاہرائوں کا جال بھنا گیا، سرینگر جموں شاہراہ پر متعدد ٹنل پروجیکٹ کو دردست لیا گیا، طبی شعبہ کو بڑھاوا دینے کیلئے اعلیٰ قسم کے ہسپتالوں کے قیام کے منصوبوں کو ہری جھنڈی دکھائی گئی، کئی میڈیکل کالج تعمیر کئے گئے، شعبہ سیاحت کا ڈھانچہ مضبوط کیا جارہا ہے، 300کے قریب نئے آف بیٹ سیاحتی مقامات کی نشاندہی کی گئی جن کے ذریعہ بے روزگار نوجوانوں کیلئے روزگار کے وسائل مہیا کئے جائیں گے۔ الغرض گزشتہ چار برسوں کے دوران یقینی طور پر جموں کشمیر بدلتا دکھائی دے رہا ہے جہاں کا نوجوان اب صرف اپنے تعلیمی کیرئر پرتوجہ مرکوز کئے ہوا ہے۔ یوم آزادی کی تقاریب میں عوام کی ٹھوس شرکت گزشتہ چار برسوں میں اُٹھائے گئے اقدامات کا ہی ثمر ہے۔