وادی کشمیر میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران آوارہ کتوں کے حملوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں سرینگر سمیت دیگر اضلاع اور قصبہ جات میں آوارہ کتوں کی ہڑبھونک سے تیس ہزار افراد زخمی ہوچکے ہیں جن میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو عمر بھر کیلئے مضروب ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس معاملے پر عوامی حلقوں اور سیول سوسائٹی نے سرینگر میونسپل کارپوریشن اور دیگر متعلقہ حکام کو معاملے کئی تئیں سنجیدگی کیساتھ سامنے آنے کی تلقین کی تاہم آج تک سرکاری سطح پر اس معاملے میں صرف کاغذی گھوڑوں سے ہی کام لیا گیا۔ زمینی سطح پر اگر بات کی جائے تو محض ایک درجن کتوں کی سائینٹفک بنیادوں پر نس بندی کرانے کے بعد متعلقہ اداروں نے عوامی مطالبات کو درخور اعتنا سمجھ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جموںکشمیر کی انتظامیہ اس معاملے میں کتنی متفکر دکھائی دے رہی ہیں۔ سرینگر میونسپل کارپوریشن جو کہ ایک وسیع بلدیاتی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے اور شہری علاقوں میں رہائش پذیر آبادی کو بنیادی سہولیات بہم رکھنے کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے، کی سرگرمیوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ایس ایم سی جیسا ادارہ بھی عوامی مطالبات پر پورا اُترنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ شہر کے ٹینگہ پورہ علاقے میں کتوں کی نس بندی مرکز قائم نہ کرنے کی وجہ سے شہر سرینگر میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔اینٹی ریبز سینٹر جی ایم سی سرینگر کی جانب سے کی گئی سروے کے بعد تیار کردہ اعدادوشمار کے مطابق شہر میں 90ہزار سے زائد آوارہ کتے موجود ہیں۔ سروے کے مطابق شہر بھر میں گھروں سے نکلنے والی کھانے پینے کی استعمال شدہ اشیاء بے ہنگم طور پر سینکڑوں مقامات پر ڈالی جاتی ہیں جو آوارہ کتوں کی افزائش نسل بڑھنے میں مدد فراہم کررہی ہے۔ شہر سرینگر آوارہ کتوں کیلئے موزون جگہ بنی ہوئی ہے کیونکہ ساڑھے 14لاکھ کی آبادی سے ہزاروں ٹن کھانے پینے کی استعمال شدہ اشیاء ہر روز نکلتی ہے، جو 90فیصد شام کے وقت سڑکوں، چوراہوں، گلی کوچوں،کھلی جگہوں، پارکوں، میدانوں، الغرض ہر جگہ ڈالی جاتی ہیں جو بعد ازاں آوارہ کتوں کیلئے غذا بن جاتی ہیں۔ٹینگہ پورہ میں میونسپل کارپوریشن نے کتوں کی نس بندی کا مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن پچھلے تین برسوں سے وہ زیر تعمیر ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی میں گزشتہ دہائی کے دوران 2011سے جنوری 2021تک تقریباً 59ہزارافراد سے زائد لوگ آوارہ کتوں کا نشانہ بن گئے ہیں۔پچھلے 5برسوں میں صدر اسپتال میں 30ہزار ایسے افراد رجسٹر کئے گئے ہیں۔2020 میں صدر اسپتال میں 3700کیسز درج کئے گئے جو اس سے قبل کے برسوں میں سب سے کم ہیں کیونکہ پچھلے سال کووڈ کی وجہ سے لوگوں کی آمد و رفت محدود رہی اور یہ سلسلہ قریب 7سے 9ماہ تک جاری رہا۔اس کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ اسپتال میں اوسطاً 10سے 15کیسز روزانہ آتے ہیں۔اسپتال اعداوشمار کے مطابق 2016کو 6500،2017کو 6800اور 2018کو6300معاملات درج کئے گئے۔بڈگام میں 175اور گاندربل میں 148کیس رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح بانڈی پورہ میں 135،بارہمولہ میں 129اور کپوارہ میں 56کیس سامنے آئے۔پلوامہ میں 114،کولگام میں42،اننت ناگ میں 41اور شوپیان میں 37معاملات رپورٹ ہوئے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کتوں کے کاٹنے کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔اور2012سے 2019تک کے دوران یہ بات شدت کیساتھ محسوس کی گئی کہ اسپتال میں آنے والے مریضوں میں 80فیصد کا تعلق شہر سرینگر سے تھا۔صدر اسپتال سروے میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر کتوں کے کاٹنے کے تین زخم ہوتے ہیںاور حیرت انگیز طور پر کتوں کے کاٹنے سے متاثرہ افراد میں سے خواتین کی تعداد بہت کم ہے اور نوجوانوں کی تعداد جن کی عمر 30سے 40سال کے درمیان ہے قریب 90فیصد کتوں کے کاٹنے کے شکار ہوجاتے ہیں۔