پہلی بات جو سب کو معلوم ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایم پوکس، جسے ماضی میں ’منکی پوکس‘ کہا جاتا تھا، اس کا دراصل ’منکی ‘یعنی بندروں سے بہت کم تعلق ہے۔
امریکہ کی پنسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی کی ماہر انسانیات سیگن فرائنٹ نے بتایا کہ ’منکی پوکس کا پہلی بار انکشاف ڈنمارک کی ایک لیبارٹری میں موجود بندروں میں ہوا تھا۔ اس وائرس سے بندر بیمار پڑتے ہیں اور انھی کے جسم سے اسے الگ کیا گیا تھا تاہم یہ وائرس بندروں سے نہیں آیا ہے۔‘
’کچھ جانوروں کو ہم وائرس پھیلانے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان جانوروں میں بیماریاں پلتی ضرور ہیں لیکن ان کو خود کوئی نقصان نہیں پہنچاتیں۔ نہ ہی ان بیماریوں کی وجہ سے ان جانوروں کی موت ہوتی ہے۔‘
ماہر انسانیات سیگن فرائنٹ نائیجیریا میں پچھلے 15 سال سے منکی پوکس پر تحقیق کر رہی ہیں۔ اسی وائرس پر وہ ایک نئی تحقیق کا آغاز کرنے ہی لگی تھیں کہ کورونا وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ منکی پوکس وائرس دراصل چوہوں سے پھیلنا شروع ہوا ہو گا تاہم فی الوقت سائنس نے اس بات کو ثابت نہیں کیا ہے۔
سنہ 2022 میں عالمی ادارۂ صحت نے منکی پوکس کا نام بدل کر ایم پوکس رکھ دیا تھا۔
سیگن فرائنٹ کہتی ہیں کہ ‘ایک طویل عرصے تک سائنسدان سمجھتے تھے کہ انسانوں کو سب سے زیادہ ان بیماریوں سے خطرہ ہے جو بندروں کی مختلف اقسام میں پائی جاتی ہیں کیونکہ ان کی جینیات ہماری جینیات سے بہت ملتی جلتی ہے۔ یہ بات سچ ہے۔’
‘لیکن اب ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ چوہوں اور چمگادڑوں سے پھیلنے والی بیماریوں پر ہمیں زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ ان کی وجہ سے انسانوں میں نئی نئی بیماریاں سامنے آ رہی ہیں۔’
وہ انفیکشن جو جانوروں سے انسانوں کو لگتے ہیں، انھیں ‘زونوٹک’ بیماریاں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ انفیکشن ایسے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہونے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو ایم پوکس اور کورونا میں کافی مماثلت ہے۔ تاہم ایم پوکس کی تاریخ کورونا سے پرانی ہے۔
ایم پوکس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہونے کے باعث یہ بیماری عالمی صحت کے حکام کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔
اگست 2024 میں جب جب بر اعظم افریقہ کے کئی ممالک میں ایم پوکس کے مریضوں کی تعداد اور اس سے ہونے والی اموات میں حیران کن اضافہ ہونے لگا تو افریقہ کے سینٹرز فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (افریقہ سی ڈی سی) نے صحت عامہ کے لیے خطرے کا اعلان کیا۔
ان میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو، برنڈی، سینٹرل افریقن ریپبلک اور روانڈا شامل ہیں۔
کچھ دنوں بعد عالمی ادارۂ صحت نے اعلان کیا کہ ایم پوکس سے صحت عامہ کے لیے خطرہ صرف افریقہ میں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہے۔
ایم پوکس کہاں سے آیا ہے؟
منکی پوکس سب سے پہلے 1958 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی ایک لیبارٹری میں موجود بندروں میں دریافت کیا گیا تھا۔ لیبارٹری میں یہ بندر دو ماہ قبل آئے تھے۔
تاہم سنہ 1970 میں انسانوں میں منکی پوکس کا پہلا کیس اس وقت سامنے آیا جب کانگو کے ایک ہسپتال میں ایک نو ماہ کے بچے کو داخل کیا گیا جسے یہ وائرس لگ چکا تھا۔
اس بچے کی رہائش جنگلات کے قریب تھی تاہم ڈاکٹرز اس بات کا سراغ نہیں لگا سکے کہ آیا بچے کو یہ وائرس کسی بندر سے لگا ہے یا یہ کسی اور شے سے۔ تاہم ہسپتال میں علاج کے بعد بچہ ٹھیک ہو گیا تھا لیکن کچھ دنوں بعد اسے خسرہ ہوا اور پھر اس کی موت ہو گئی۔
ممکن ہے کہ اس سے پہلے بھی منکی پوکس سے متاثرہ مریض موجود ہوں مگر ان میں وائرس کی تشخیص نہ ہوسکی ہو کیونکہ منکی پوکس سے بھی جِلد پر اسی طرح کے دانے نمودار ہوتے ہیں جیسے چیچک وغیرہ میں ہوتے ہیں۔ افریقہ کے کئی ممالک میں اس طرح کے کیسز رونما ہوئے تھے۔
ایم پوکس کی دو اہم اقسام ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔
اس سے پہلے 2022 میں اعلان کردہ ایم پوکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔
یہ وائرس تقریباً 100 ممالک میں پھیلا جہاں عام طور پر اس کے متاثرین نہیں ہوتے۔ ان میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا۔ اب اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔
پچھلے سال ستمبر کے آس پاس وائرس میں تبدیلی آئی تھی۔ ارتقا کے نتیجے میں کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہی ہے۔
اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے ’اب تک کی سب سے خطرناک‘ قسم قرار دیا ہے۔
یہ بیماری پہلی بار 2003 میں امریکہ میں پھیلی جب منکی پوکس کے ایک ساتھ 70 کیسز رپورٹ ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں یہ وائرس ‘پریری ڈوگز’ (گلہری کی ایک قسم) کے ذریعے آیا تھا جو کسی نے پالی ہوئی تھیں۔ ان پریری ڈوگز کو افریقہ کے ملک گھانا سے آئے ہوئے چوہوں کے ساتھ رکھا گیا تھا۔
تاہم برطانیہ، اسرائیل اور سنگاپور جیسے ممالک میں منکی پوکس ان لوگوں کے ذریعے پھیلا جو حال ہی میں افریقی ممالک کا دورہ کر کے آئے تھے۔
مئی 2022 سے لے کر اب تک امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، یورپ اور کینیڈا میں وقتاً فوقتاً منکی پوکس کے کیسز رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ ان رپورٹس کی وجہ سے صحت کے حکام اور سائنسدان خبردار ہوئے تاہم ان کی تعداد افریقہ میں رپورٹ ہوئے کیسز سے قدرے کم تھی۔
جبکہ افریقہ میں یہ بیماری مقامی وبا سمجھی جاتی ہے۔ جنوری 2023 سے کانگو میں منکی پوکس کے 19 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور اس سے ہونے والی اموات کی تعداد 900 ہو گئی ہے۔
کانگو میں وائرس کی ‘کلیڈ ون’ نامی ایک مہلک قسم پھیل رہی ہے جبکہ امریکہ میں سنہ 2022 میں منکی پوکس کی ‘کلیڈ ٹو’ نامی قسم پھیلی تھی جو’کلیڈ ون’ سے کم خطرناک ہے۔
یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (ڈی آر سی) کا کہنا ہے کہ کانگو میں پھیلنے والی ایم پوکس وائرس کی قسم سے امریکہ کو کم خطرہ لاحق ہے۔
جن لوگوں کو ایم پوکس کی ویکسین لگ چکی ہے یا جو لوگ پہلے بھی ایم پوکس کا شکار ہو چکے ہیں، وہ کلیڈ ون وائرس سے محفوظ ہیں۔
فی الوقت امریکہ میں کلیڈ ون وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے تاہم سنہ 2022 میں ملک میں اس وائرس کا پھیلاؤ کہاں سے شروع ہوا، یہ معمہ ابھی تک حل طلب ہے۔
تاہم جینیاتی تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وائرل ہونے والے ایم پوکس کی یہ قسم اس کی ان ارتقائی اقسام میں سے ہے جو ابتدائی طور پر مغربی افریقہ میں نمودار ہوئی تھی۔ تاہم اس کا ان ممالک سے کوئی واضح تعلق نہیں ملا جہاں یہ وائرس مقامی طور پر پایا گیا ہے۔
اب ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ انھیں شک ہے کہ یہ وائرس افریقہ سے باہر متعدد ممالک میں بنا تشخیص کے کئی مہینوں سے پھیل رہا ہو گا۔
کچھ غیر تصدیق شدہ جینیاتی تجزیوں کے مطابق سنہ 2017 میں مغربی افریقہ کے ایم پوکس کی کلیڈ ٹو قسم میں یہ قوت آ چکی تھی کہ وہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جائے۔ تب سے اب تک ایم پوکس کے ڈی این اے میں ایک بڑی تعداد میں تبدیلیاں آچکی ہیں اور اس کی کئی اقسام بن چکی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے یہ وائرس انسانوں کے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے اور انسانوں میں با آسانی پھیل جاتا ہے۔
حال میں ایم پوکس وائرس کی نئی قسم ‘کلیڈ ون بی’ کانگو میں نمودار ہوئی ہے۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر کوئی اس وائرس کے زیادہ قریب رابطے میں ہو تو اسے یہ وائرس با آسانی لگ سکتا ہے۔
یہ پہلی بار کانگو کے شہر گوما کے آس پاس کے علاقے میں نمودار ہوا اور خاص طور پر 15 سال سے کم عمر کے بچوں میں پایا جاتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وائرس کی یہ قسم ستمبر 2023 کے آغاز میں پھیلنا شروع ہوئی ہو گی۔
’ایم پوکس‘ کیسے پھیلتا ہے؟
کورونا وائرس انتہائی متعدی ہے اور بنیادی طور پر چھوٹی چھوٹی بوندوں کے ذریعے پھیلتا ہے خاص طور پر جب ہم سانس لیتے ہیں تاہم ایم پوکس اس کے برعکس ہے اور اتنی آسانی سے منتقل نہیں ہوتا۔
ایم پوکس کا انحصار جسمانی رابطے پر ہے، خاص طور پر اگر یہ رابطہ طویل عرصے تک قائم ہو۔ یہ وائرس با آسانی ایک انسان سے دوسرے انسان یا جانور سے انسان میں منتقل ہو سکتا ہے۔
امیرکن سوسائٹی فار مائیکروبائیولوجی (اے ایس ایم) کی میڈلن بیرن نے بتایا کہ ‘یہ وائرس کسی بھی ایسے شخص سے لگ سکتا ہے جسے متعدی خارش ہو یا زخم ہوں یا اس کے جسم سے رطوبتوں کا اخراج ہوتا ہو۔’
‘آپ کو وائرس ایسی چیزوں سے بھی لگ سکتا ہے جسے ایم پوکس سے متاثرہ شخص نے چھوا ہو۔’
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اپریل 2022 سے جون 2022 کے درمیان 16 ممالک میں 98 فیصد انفیکشنز ایسے مردوں میں رپورٹ ہوئے تھے جن کے دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ محض ایک اتفاق ہو کیونکہ ایک بار جب کسی کمیونٹی میں ایک انفیکشن داخل ہوتا ہے تو یہ اس کمیونٹی میں آرام سے پھیل جاتا ہے۔ تاہم اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ منکی پوکس صرف ایسے مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہے جن کے دوسرے مردوں سے جنسی تعلقات ہوتے ہیں، نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ یہ بیماری عورتوں سے زیادہ مردوں میں پھیلتی ہے۔
اے ایس ایم کی میڈلن بیرن بتاتی ہیں کہ ‘اس وقت ہمیں نہیں معلوم کہ یہ وائرس صرف جنسی تعلقات کی وجہ سے پھیلتا ہے جیسے وجائینا یعنی اندام نہانی سے اخراجات یا نطفے کے ذریعے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ انسانوں کے درمیان قریبی رابطے سے پھیلتا ہے۔’
اگرچہ محققین کو ایم پوکس کا ڈی این اے نطفے میں ضرور ملا ہے، تاہم اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ یہ نطفے کے ذریعے ہی پھیلتا ہو۔
ایم پوکس کتنا خطرناک ہے؟
ایک اور اہم بات جو آپ کو ایم پوکس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ وسطی افریقہ میں پائی جانے والی اس بیماری کی قسم کے مقابلے میں مغربی افریقہ میں پائی جانے والی بیماری کم مہلک ہے۔
کلیڈ آئی سٹرین کی اموات کی شرح تقریباً 10 فیصد ہے۔ کلیڈ ٹو سے متاثرہ افراد میں سے 99.9 فیصد کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2022 میں وبا پھیلنے کے بعد سے جون 2024 تک 99176 کیسز سامنے آئے تھے اور اس بیماری سے 208 افراد ہلاک ہوئے۔
ایم پوکس کی وجہ سے اموات کی شرح تو کم ہے تاہم یہ بیماری انتہائی تکلیف دہ ہے۔
بیرن کا کہنا ہے کہ ’یہ بیماری اتنی جلدی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی، یہ آپ کو اُلجھنوں کا شکار کرتی ہے، آپ اس سے دور ہی رہنا چاہیں گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’لوگ شروع میں فلو جیسی علامات محسوس کر سکتے ہیں، بخار، سر درد لیکن جیسے جیسے بیماری بڑھتی ہے، آپ کو دانے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کے منھ، پیروں اور جسم کے جنسی اعضا پر زخم بننے لگتے ہیں اور یہ پیپ سے بھرے چھالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
انفیکشن لگنے کے پانچ سے 21 دن کے بعد اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ابتدائی طور پر اس کے آغاز میں سر درد، بخار، پٹھوں میں درد اور پہلے چند دنوں تک تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔
کیا ایم پوکس کا وائرس تبدیل ہو رہا ہے؟
ایم پوکس ایک اینٹ کی شکل جیسا وائرس ہے جس کا دوہرا ڈی این اے ہے۔ یہ اچھی خبر ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس نسبتاً مستحکم ہے اور اس کے حالتیں تبدیل کرکے زیادہ مہلک بننے کا امکان کم ہے۔
سارس-کووڈ ٹو وائرس جو کورونا وائرس کے پھیلنے کا سبب ہے ایک آر این اے وائرس ہے۔
ٹیکساس سٹیٹ یونیورسٹی کے صحت عامہ اور وائرولوجی پر کام کرنے والے پروفیسر روڈنی روہڈے کہتے ہیں کہ ’آر این اے وائرس تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ایسے وائرس بہت مہلک ہوتے ہیں۔‘
سنہ 2022 میں پروفیسر روڈنی اور بیرن نے امریکن سوسائٹی آف مائیکرو بایولوجی کے لیے ایم پوکس کے بارے میں موجودہ علم کو اکھٹا کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ڈی این اے وائرس عام طور پر اتنی تیزی سے تبدیل نہیں ہوتے۔ اب تک ہم نے ایم پوکس کی جو 50 میوٹیشنز دیکھی ہیں ان کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ میوٹیشنز اس بیماری کو سنگین نہیں بناتیں۔‘
ایم پوکس کو عالمی سطح پر صحت کے لیے ہنگامی صورتحال کیوں قرار دیا گیا ہے؟
ڈبلیو ایچ او نے جولائی 2022 میں ایم پوکس کو تشویش ناک بیماری قرار دیا تھا جس سے صحتِ عامہ کو خطرہ لاحق تھا لیکن اس بیماری سے نمٹنے میں پیش رفت کی وجہ سے مئی 2023 تک اس کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
تاہم اب پھر سے ایم پوکس سے پیدا ہونے والا خطرہ بڑھ گیا ہے اور اگست 2024 میں افریقہ سی ڈی سی نے وائرس کی نئی اقسام کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے براعظم میں صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا ہے۔
14 اگست 2024 کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے افریقہ میں ایم پوکس کے کیسز میں اضافے کے باعث اسے بین الاقوامی سطح پر صحتِ عامہ کے لیے خطرناک قرار دیا۔ ڈبلیو ایچ او نے ڈی آر سی میں کیسز کی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا جہاں 15600 کیسز اور اموات کی تعداد 537 ہو چکی ہے جو 2023 کے پورے سال کی تعداد سے زیادہ ہے۔
تشویش کی وجوہات میں چیچک کے ساتھ ایم پوکس کا تعلق ہے۔
تقریباً 200 سالوں سے ہم باقاعدگی سے لوگوں کو چیچک سے بچنے کے حفاظتی ٹیکے لگاتے آ رہے تھے اور اسی عالمی سائنسی کوشش کی بدولت دنیا سے چیچک کی بیماری ختم ہو گئی اور 8 مئی 1980 کو دنیا کو چیچک سے پاک قرار دیا گیا تھا۔
اگرچہ چیچک کا وائرس اب بھی محفوظ لیبارٹریوں میں موجود ہے لیکن اب یہ ایک متعدی بیماری نہیں ہے۔
ویکسین کتنی موثر ہیں؟
اچھی خبر یہ ہے کہ چیچک کے لیے تیار کردہ ویکسین ایم پوکس کے خلاف 80 فیصد تک موثر ہیں۔ اگرچہ دنیا بھر میں چیچک کی ویکسین کے ذخیرے کو تباہ کرنے کے حوالے سے حالیہ دنوں میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں تاہم کچھ مُمالک اس ویکسین کے دوبارہ حصول کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
زیادہ تر دولت مند ممالک میں ایسا ہوا ہے۔ اور یہ شاید حالیہ عرصے میں اس بیماری کے پھیلنے کا سب سے مایوس کن پہلو ہے۔
ہم اس بیماری کے بارے میں 50 سال سے زیادہ عرصے سے جانتے ہیں لیکن جب یہ شمالی امریکہ اور یورپ تک پھیلی تو افریقہ سے باہر کی حکومتوں نے اس پر توجہ دی۔
افریقہ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 کے آغاز سے اب تک براعظم بھر میں ایم پوکس کے تقریباً 1267 مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں کم از کم 285 اموات ہوئی ہیں۔
ٹیکساس یونیروسٹی کے پروفیسر رینڈی روہڈے کہتے ہیں کہ ’ہم میں سے بہت سے لوگ دہائیوں سے اس قسم کے مسائل کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہم اُس مُشکل کے بارے میں تب تک نہیں سوچتے جب تک کہ وہ ہمارے دروازے پر آ دستک نا دے۔‘
میڈلے بیرن کا کہنا ہے کہ ’ان علاقوں میں جہاں یہ مقامی بیماری ہے اور یہ طویل عرصے سے ایک مسئلہ رہا ہے وہ اب بھی وسائل، تشخیص، ویکسین، وبا سے نمٹنے کے لیے درکار ہر چیز حاصل کرنے کے معاملے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر کووڈ نے ہمیں کچھ سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ دنیا چھوٹی ہے اور آپ کو بیماریوں سے نمٹنے کے لیے مربوط کوشش کی ضرورت ہے کیونکہ بیماریاں سرحدوں تک محدود نہیں رہتیں۔‘
کووڈ 19 کی طرح ایم پوکس جانوروں سے انسانوں میں پھیلنے والی تازہ ترین بیماری ہے۔ اس کے نسبتاً سست پھیلاؤ اور اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ انفیکشن کو روکنے کے لیے ویکسین دستیاب ہیں اس بات کا امکان ہے کہ ایم پوکس کی وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ لیکن منکی پوکس اس نوعیت کی آخری بیماری نہیں ہو گی اور دنیا کو آئندہ کے لیے تیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہو گی۔