وادی کشمیرمیں شاہراہوں پر بے ہنگم ٹریفک جام معمول بن چکا ہے۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر چار سے پانچ گھنٹے ٹریفک جام میں ضائع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مسافروں اور راہ گیروں کا کافی سارا وقت ضائع ہوتا ہے۔ نیز تشویش ناک مریض، طلبا، ملازمین اور دیگر مزدور پیشہ افراد اس وجہ سے نہ متعلقہ مقامات پر دیر سے پہنچ پاتے ہیں۔ بیشتر اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آگیا کہ تشویش ناک مریض جنہیں مختلف اضلاع سے سرینگر کے ہسپتالوں میںمنتقل کیا جارہا تھا ، ان بے ہنگم ٹریفک جام کی وجہ سے وہ راستے میں ہی دم توڑ بیٹھے۔اسے ستم ظریفی ہی کہیے گا کہ موجودہ دور میں جہاں مقامی انتظامیہ معیاری سہولیات بہم رکھنے کی یقین دہانیاں دے رہی ہیں وہیں ہماری شاہرائوں اور سڑکوں پر ٹریفک کی لمبی لمبی قطاروں کا آج تک کوئی سدباب نہ ہوسکا۔ شاہرائوں اور سڑکوں کی مرمت اور تجدید کاری پر کروڑوں کی رقم خرچ کی گئی لیکن اس کے باوجود ٹریفک کے بڑھتے جام کم نہ ہوئے۔ شہر سرینگر اور مضافات میں روزانہ کی بنیاد پر صبح اور شام کو گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں گھنٹوں انتظار کررہی ہوتی ہیں کہ کب وہ ان پُرآلام اوقات سے گزرجائیں۔ محکمہ ٹریفک جو اس کا مکلف ہے کہ وہ شہر اور دیگر قصبہ جات میں ٹریفک کی روانی کو بلا خلل جاری رکھیں ، نے بھی آج تک کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لائی۔محکمہ کے اندر اعلیٰ افسران آتے گئے اور جاتے گئے لیکن کوئی ٹھوس پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے شہری و دیہی علاقوں میں ٹریفک جام کا سدباب آج تک نہ ہوا۔ محکمہ ٹریفک نے گزشتہ کئی برسوں سے شاہراہوں پر ڈوائیڈر نصب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے تاہم اس سطحی اقدام نے بھی عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔اس پورے عمل کو سمجھنے ، غور و فکر کرنے، پالیسی تشکیل دینے اور پھر اس کو زمینی سطح پر عملانے کیلئے ایک مربوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے جس میں نہ صرف محکمہ ٹریفک بحیثیت اکائی شامل ہو بلکہ دیگر محکمہ جات بشمول نجی ادارے بھی شامل ہونے چاہیے تاکہ ٹریفک کے اس بے ہنگم نظام سے عام آدمی کو چھٹکارا مل جائے۔ محکمہ ٹریفک کو گاڑیوں کی نقل و حرکت کی روانی کو یقینی بنانے کیلئے محکمہ آر ٹی او کیساتھ ساتھ یہاں قائم نجی کار مالکان کیساتھ بھی مل بیٹھ کر صلاح و مشورہ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سڑکوں پر روزانہ کی بنیاد پر 300سے 400کی تعداد میں نئی گاڑیاں آجاتی ہیں جس کی وجہ سے پہلے سے موجود گاڑیوں میں مزید اضافہ کے باعث آئے روز ٹریفک جام کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہی نجی کار شوروموں کیساتھ ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایک نجی کار ڈیلر مقدار کے مطابق گاڑیوں کو مارکیٹ میں فروخت کرسکیں۔ ادھر محکمہ آر ٹی اُو کو بھی اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ادارہ کوایجنٹوں پر تکیہ کرنے کے بجائے ذاتی طور پر صرف انہی گاڑیوں کو کاغذات فراہم کرنے چاہیے جو ان کا استحقاق رکھتے ہوں۔ معاملہ انتہائی کٹھن ہے، لیکن اس کا حل انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر ڈھونڈنے میں پنہاں ہے۔اُمید ہے حکام بالا اس جانب بھی توجہ مبذول کریں گے۔