افغانستان میں طالبان نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے صوبہ غزنی کے دارالحکومت غزنی کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور اس صورتحال میں افغان حکومت نے طالبان کو اقتدار میں شراکت کی پیشکش کردی ہے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں اہم حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کے لیے افغان حکومت نے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے قطر کو ایک پیشکش کی ہے، اس پیشکش کے تحت طالبان کو اقتدار میں شراکت کی پیشکش کی گئی ہے اور اس کے بدلے میں پرتشدد واقعات روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اقتدار میں شراکت کی یہ پیشکش قطر کے ذریعے کی گئی ہے جو افغان امن مذاکرات کی میزبانی بھی کررہا ہے۔صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکرگاہ میں لڑائی عروج پر ہے اور طالبان نے وہاں کے پولیس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔دوسری جانب طالبان نے کابل سے صرف 150 کلومیٹر کے فاصلے پر افغانستان کے اسٹریٹجک شہر غزنی کا کنٹرول حاصل کرلیا۔یہ شہر ایک ہفتے میں طالبان کے قبضے میں آنے والا 10 واں صوبائی دارالحکومت ہے جو اہم کابل-قندھار شاہراہ کے ساتھ واقع ہے اور دارالحکومت اور جنوب میں طالبان کے گڑھ کے درمیان ایک گیٹ وے کے طور پر کام کرتا ہے۔صوبہ میدان ورک میں غزنی کے گورنر کو بھی طالبان نے گرفتار کر لیا ہے جہاں اس سے قبل ان کے صوبے سے فرار ہونے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی۔واضح رہے کہ افغان تنازع مئی سے ڈرامائی طور پر بڑھ گیا ہے جب امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج نے 20 سال کے قبضے کے بعد رواں ماہ کے آخر میں فوجی دستوں کی واپسی کے آخری مرحلے کا آغاز کیا۔غزنی کے بعد ممکنہ طور پر ملک کی پہلے سے دباؤ کا سامنا کرنے والی فضائیہ پر مزید دباؤ پڑے گا جو افغانستان کی بکھری ہوئی سیکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے۔ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں طالبان نے 10 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا اور اب شمال کے سب سے بڑے شہر مزار شریف کے روایتی طالبان مخالف گڑھ کو گھیرے میں لے لیا ہے۔بدھ کی رات طالبان نے قندھار میں جیل پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ‘ایک طویل محاصرے کے بعد مکمل طور پر فتح کرلیا گیا ہے اور اس میں سے سیکڑوں قیدیوں کو رہا کر کے محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا۔طالبان اکثر جیلوں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ قید جنگجوؤں کو رہا کیا جائے اور ان کی صفوں کو بھرا جاسکے۔ادھر قطر میں جاری مذاکرات کا تیسرا اور آخری دن شروع ہو گیا تاہم اب تک ہونے والے مذاکرات میں کسی بھی قسم کی پیشرفت نہیں ہوئی البتہ افغان حکومت کے نمائندے آج اس حوالے سے پیشرفت کے لیے پرامید ہیں۔ان مذاکرات میں افغانستان اور طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ، پاکستان، ازبکستان، امریکا، برطانیہ، چین اور یورپی یونین کے سفارتی حکام بھی شریک ہیں۔اس حوالے سے اقوام متحدہ نے کہا کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک افغانستان میں پرتشدد واقعات کے باعث تقریباً 3 لاکھ 90 ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔اقوام متحدہ کی ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے انسانی حقوق کے ساتھیوں نے بتایا ہے کہ یکم جولائی سے 5 اگست 2021 تک نقل مکانی کرنے والے 5 ہزار 800 افراد کابل آ چکے ہیں۔ملک میں بدترین حالات کو دیکھتے امریکا، برطانیہ اور بھارت نے سفارتی عملے سمیت اپنے شہریوں کو پہلے ہی وطن سے واپس بلا لیا تھا اور اب ڈنمارک نے بھی افغانستان میں موجود اپنے شہریوں اور مقامی ملازمین کو فوری طور پر ملک سے انخلا کی ہدایت کردی۔حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی سنگین ہے، طالبان توقعات سے زیادہ تیزی سے علاقوں کا کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے کہ ڈنمارک سے تعلقات اور روابط کی وجہ سے خطرات سے دوچار افغان عوام کی مدد کریں۔