امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا ایک مرتبہ پھر دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحران کی صورت حال میں افراتفری کے بغیر افغانستان سے انخلا کا کوئی راستہ نہیں تھا۔خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اے بی سی کے گڈ مارننگ امریکا کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ طالبان اس بات کے خواہاں ہیں کہ عالمی برادری انہیں ایک جائز اور قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کرے جبکہ وہ اس وقت وجودی بحران کا شکار ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ القاعدہ اور ان سے وابستہ تنظیموں کا خطرہ افغانستان کے مقابلے میں دنیا کے دیگر حصوں میں زیادہ ہے، شام یا مشرقی افریقہ میں القاعدہ سے وابستہ افراد کی وجہ سے منڈلاتے خطرے کو نظر انداز کرنا عقلمندی نہیں جہاں ان خطوں میں امریکا کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔امریکی صدر نے افغانستان سے امریکی انخلا کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ سب سے زیادہ خطرہ کہاں ہے۔جو بائیڈن نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے حوالے سے تحفظات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فوجی طاقت کے ذریعے دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کی کوشش سمجھداری نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس کے بجائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سفارتی اور بین الاقوامی دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ وہ اپنا رویہ بدلیں۔اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ اگر افغانستان میں امریکی شہری رہ گئے تو جب تک ہم انہیں نکال نہیں لیتے، اس وقت تک ہمیں وہاں رہنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ طالبان، افغانستان سے امریکیوں کے انخلا میں تعاون کر رہے ہیں البتہ افغان شہریوں کو وہاں سے نکالنے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ طالبان تبدیل نہیں ہوئے ہیں بلکہ وجود کے حوالے سے بحران سے گزر رہے ہیں اور مجھے نہیں پتا کہ وہ اپنی حکومت کے حوالے سے عالمی برادری کی منظوری چاہتے ہیں یا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے فیصلے پر قائم ہوں، 20 سالوں کے بعد میں نے مشکل طریقہ سیکھا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کا کبھی اچھا وقت نہیں آئے گا۔امریکی صدر نے اس سے قبل پیر کو طالبان کو خبردار کیا تھا کہ وہ کابل ایئرپورٹ پر ہزاروں امریکی سفارت کاروں اور افغان مترجموں کے انخلا میں خلل نہ ڈالیں۔جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں کہا تھا کہ کسی بھی حملے کا جواب انتہائی تیز اور طاقت ور ہو گا۔انہوں نے امریکی انخلا کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پالیسی کے حق میں ہیں اور یہ وقت ہے کہ 20 سال کے تنازع کے بعد وہاں سے نکل جایا جائے۔کابل میں صدارتی محل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے 16 اگست کو افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔طالبان کے شریک بانی عبدالغنی برادر نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ اب وقت ہماری آزمائش کا ہے اور ہم کوشش کریں گے کہ اس میں ثابت قدم رہیں، اب ہمیں یہ دکھانا ہے کہ ہم اپنی قوم کی خدمت کر سکتے ہیں اور ان کی زندگی کی حفاظت اور سکون یقینی بنا سکتے ہیں۔