سری نگر، 9 اپریل (یو این آئی)// جموں وکشمیر انتظامیہ کی طرف سے کورونا کی روک تھام کے لئے وادی کشمیر کے چار اضلاع میں نائٹ کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ سوشل میڈیا پر گرم موضوع بحث بن گیا ہے۔لوگوں کا استفسار ہے کہ جس علاقے میں شام ڈھلتے ہی کاروباری سرگرمیاں بند ہو کر لوگ گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور شام کے نو بجنے کے قبل ہی ہر سو سناٹا چھا جاتا ہے وہاں نائٹ کرفیو کا نفاذ کیا معنی رکھتا ہے۔ان کا الزام ہے کہ جموں و کشمیر یو ٹی انتظامیہ دراصل ملک کی دوسری ریاستوں میں کورونا کو روکنے کے لئے کئے جانے والے اقدام کی نقل کرتی ہے۔یہ بتا دیں کہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کورونا کی روک تھام کے لئے یونین ٹریٹری کے آٹھ اضلاع میں نائٹ کرفیو نافذ کرنے کے احکامات صادر کئے ہیں۔انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے: ‘جموں، ادھم پور، کھٹوعہ، سری نگر بارہمولہ، بڈگام، اننت ناگ اور کپوارہ اضلاع کے میونسپل حدود میں رات کے 10 بجے سے صبح 6 بجے تک کرفیو نافذ رہے گا’۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کشمیر کے چار اضلاع میں نائٹ کرفیو کے نفاذ پر مزحیہ انداز میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا: ‘یہ بات تسکین دہ ہے کہ کورونا وبا نے سیاسی جلسوں، مذہبی اجتماعوں اور میلوں میں دن کے دوران نہ پھیلنے کا فیصلہ لیا ہے’۔
نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور عمر عبداللہ کے مشیر تنویر صادق نے نائٹ کرفیو کے نفاذ کے رد عمل میں اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ‘کشمیر میں نائٹ کرفیو کا کیا فائدہ ہے؟ یہ کوئی میٹرو شہر نہیں ہے۔ یہاں 1989 سے ہی نائٹ لائف مسدود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ (حکام) لوگوں کو ماسک پہننے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکیسن کرانے کو یقینی بنائیں’۔
سینیئر صحافی اور مصنفہ نعیمہ احمد مہجور کشمیر کے بعض اضلاع میں نائٹ کرفیو کے نفاذ کو وٹس اپ یونیورسٹی کی نئی تحقیق قرار دیتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہتی ہیں: ‘حکومت نے کشمیر میں رات کو کرفیو اور دن کو میوزک، فیشن اور سپورٹس ریلیوں کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ وٹس اپ یونیورسٹی کی نئی تحقیق کے مطابق کورونا رات کو پھیلتا ہے’۔
سینیئر صحافی بشارت مسعود نائٹ کرفیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ‘بمہربانی ان (لیفٹیننٹ گونر منوج سنہا) کو بتائیں کہ کشمیر شام آٹھ بجے خود ہی بند ہوجاتا ہے لہٰذا یہاں نائٹ کرفیو نافذ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے یہاں نائٹ کلب اور نائٹ پارٹیاں نہیں ہوتی ہیں۔ سری نگر میں ممبئی ماڈل کی نقل نہیں کی جاسکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ٹیولپ گارڈن کو بند کیا جائے یا یہاں نارملسی دکھانے کے لئے اس کا کھلا رکھنا ضروری ہے’۔
صحافی اور مصنف گوہر گیلانی نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے: ‘سری نگر میں نائٹ کرفیو نافذ کیا گیا ہے جہاں شام ہوتے ہی زندگی کی رفتار تھم جاتی ہے لیکن دوسری طرف ایک نیشنلسٹ یاترا کی 6 لاکھ یاتریوں کی میزبانی کے لئے تیاریاں زوروں پر ہیں تاکہ یہ باور کیا جاسکے کہ اس علاقے، جہاں ماتم کو جرم قرار دیا جاتا ہے اور میڈیا پر قدغن ہے، میں سب کچھ نارمل ہے’۔
سماجی کارکن گفتار احمد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ‘کشمیر میں جب کوئی نائٹ لائف ہی نہیں ہے تو کرفیو لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ وہ باغات جنہیں لوگوں کے لئے کھول دیا گیا ہے، بھی رات کو بند رہتے ہیں یہی صورتحال جموں کی بھی ہے’۔
نیشنل کانفرنس کے صوبائی ترجمان عمران نبی ڈار نے اس سلسلے میں اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ‘کشمیر میں گذشتہ 30 برسوں سے نائٹ کرفیو نافذ ہے یہاں کوئی پارٹی یا اجتماع دوران شب نہیں ہوتا ہے۔ یہاں رات کو کوئی ریستوران بھی کھلا نہیں رہتا ہے۔ یہ کاپی کیٹ حکمنامہ ہے’۔
صحافی فہاد شاہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ‘کشمیر میں کورونا وبا کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے نائٹ کرفیو کے نفاذ سے مجھے وہ لوگ یاد آگئے جنہوں نے اس وائرس سے لڑنے کے لئے گوبر میں نہایا’۔
صحافی سمان لطیف نے اپنے ایک ٹویٹ میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ‘کورونا کی دوسری لہر سے نجات پانے کے لئے کاپی پیسٹ منصوبہ بندی سے کیا امید کی جاسکتی ہے۔ کشمیر میں نائٹ کرفیو نافذ کیا گیا جہاں رات کو کتے بھی باہر نکلنے سے گبھراتے ہیں’۔
کشمیر میں نائٹ کرفیو کے نفاذ کے متعلق ایک اور صحافی محمد رفیع کا اپنے ایک ٹویٹ میں کہنا ہے: ‘کشمیر میں رات کے دوران کسی قسم کی شراب و رقص اور دوسری پارٹیوں کا انعقاد نہیں ہوتا ہے لیکن انتظامیہ نے رات کے دس بجے سے صبح کے چھ بجے تک کرفیو نافذ کیا ہے جبکہ دوسری طرف تمام باغات، جن میں ملک بھر کے سیاحوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے، کو کھلا رکھا گیا ہے’۔
ایک سکالر شاہد ایوب نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ‘کشمیر میں ہم آٹھ بجے کے بعد باہر ہی نہیں نکلتے ہیں جبکہ حکومت نے یہاں نائٹ کرفیو نافذ کیا ہے۔ میں اس فیصلے کے پیچھے چھپے منطق کو سمجھنے سے قاصر ہوں’۔