تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس :سلفیہ مسلم انسٹیٹیوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر :6005465614
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی
گزشتہ کئی مہینوں سے وادی کشمیر میں مسلسل معصوم بچے سفر آخرت پر روانہ ہورہے ہیں۔ کہیں پر درندوں کے شکار، کہیں پر غرق آب تو کہیں پر بجلی کرنٹ کے ذریعے سپردجاک ہورہے ہیں۔روز بہ روز ان حادثات کی شرح بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے لیکن شریعت اسلامیہ ہمیں عقول و اذھان استعمال کرنے کا درس دیتی ہے۔تبھی تو شریعت مطہرہ نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان حادثات کو دیکھ کر بھی والدین اپنی ہی دنیا میں مہو اور مشغول ہے۔غفلت کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن اتنی غفلت عقل و سمجھ سے باہر ہے۔ والدین اپنی ذمہ داریوں سے یکسر غافل ہوچکے ہیں اور یہی غفلت قاتل بن کر ان کے بچوں کا خون بہا رہی ہے۔معصوم، نابالغ بچے عقل سے بھی کمزور ہوتے ہیں لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں والدین عقل سے محروم نظر آرہے ہیں۔ شریعت مطہرہ نے ہمیں سات سال کے بعد بچے کی دینی تربیت کی ذمہ داری رکھی ہے اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ سات سال تک بچے کو اپنے پاس رکھنا ہے، اسکی عقل کو پختہ بنانا ہے۔انہیں زندگی کے نشیب و فراز سکھانے ہیں تاکہ سات سال کے بعد انہیں شرعی احکامات کی معرفت حاصل ہوجا۔
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ،”مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم ابناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع”.
ترجمہ "جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو”.(مسند احمد، سندہ حسن)
وادی کے مختلف اطراف و اکناف سے خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ مختلف ندی نالوں میں بچے نہانے کی غرض سے جاتے ہیں لیکن وہاں سے ان کی لاشیں برآمد ہورہی ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب یہ معلوم ہے کہ ان ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے، تو پھر والدین کیوں قصداً انہیں وہاں جانے دیتے ہیں؟ انسان سب کچھ بچوں کے لئے ہی کرتا ہے، حلال و حرام کے درمیان فرق نہیں کرتا، جائز و ناجائز کو بھول جاتا ہے لیکن صد افسوس کہ عین موقع پر غفلت کرکے اپنی خوشیوں کو مٹا رہے ہیں۔ اولادوں کی طرف دھیان دینے کی بات ہو تو رسول کریمﷺ کا اسوہ حسنہ مطالعہ کیجئے۔ "عن عمر بن ابي سلمة، انه دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده طعام قال: ” ادن يا بني وسم الله وكل بيمينك وكل مما يليك”. ترجمہ "عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، آپ کے پاس کھانا رکھا تھا، آپ نے فرمایا: ”بیٹے! قریب ہو جاؤ، بسم اللہ پڑھو اور اپنے داہنے ہاتھ سے جو تمہارے قریب ہے اسے کھاؤ”.(سنن ترمزی، سندہ صحیح) حدیث مبارک سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ بچوں کے معاملے میں نہایت ہی سنجیدہ رہتے تھے۔ جہاں موقع ملتا وہاں انہیں آداب زندگی سکھاتے تھے۔ جہاں بچے غلطی کرتے وہاں انہیں ٹوکتے تھے تاکہ بچپن سے ہی ان کی اصلاح ہوجا۔ ابوالحسین خالد مدنی کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے، لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پھر ہم ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، ان سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں، اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی: «وفينا نبي يعلم ما في غد» ”ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا مت کہو، اس لیے کہ کل کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا”.(صحیح بخاری،سنن ابن ماجہ)ہمارے بچے اگر غلطی بھی کریں، کسی کو گالی بھی دیں، کسی کے ساتھ بدکلامی بھی کریں، ہم یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں "یہ تو بچے ہیں، سدھر جائیں گے”.یہ جملہ صراحتاً نبوی ﷺ تعلیمات کے خلاف ہے۔
رسول کریمﷺ سفر میں ہوتے اور کوئی بچہ ساتھ ہوتا تو نبی کریم ﷺ سفر میں بھی موقع ملتے ہی بچوں کو نصائح سے نوازتے تھے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ تاجدار حرم بچوں کی تربیت و پرورش کے بارے میں کتنا محتاط رہتے تھے۔ بچپن کے ابتدائی سات سال تربیت کے لحاظ سے بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ انہیں سالوں میں بچے کو سچ، جھوٹ کا فرق سکھانا ہے، آداب و اخلاق کا درس دینا ہے، عقائد و عبادات کی طرف بچے کو مائل کرنا ہے۔ بچے کو برے ہم نشینوں سے بچانا ہے۔نیز اسی طرح بچوں کی طبی،ماحولیاتی، ذہنی تبدیلیوں کا خیال رکھنا ہے۔اسی ضمن میں ایک حدیث ملاحظہ کیجئے۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں” میں ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے سوار تھا کہ اسی درمیان آپ نے فرمایا: "اے لڑکے! میں تمھیں کچھ باتیں سکھانا چاہتا ہوں۔ اللہ (کے حقوق) کی حفاظت کرو، اللہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ (کے حقوق) کا خیال رکھو ، اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے اور جب مانگو، تواللہ ہی سے مانگو اور جب مدد طلب کرو، تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو، اور اس بات کو جان لوکہ اگر تمام مخلوق بھی تمھیں فائدہ پہنچانا چاہے، تو تمھیں اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے، جتنا اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سب مل کر بھی تمھیں نقصان پہنچانا چاہیں، تو تمھیں اتنا ہی نقصان پہنچاسکتے ہیں، جتنا اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیاہے۔ قلم اٹھالیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے”.(جامع ترمذی) والدین امت! اپنے بچوں کے تئیں محتاط رہیے۔ موت کا بازار گرم ہے۔اپنے گلشن کی حفاظت کیجئے۔
عید کا دن بھی گزر گیا لیکن عید کے موقع اس قوم کے کچھ بھیانک چہرے نظر آ۔ یہ عید تو درس اسماعیل دیتی ہے کہ کس طرح سیدنا اسماعیل نے اپنے اباجان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ لیکن ہمارے اولاد فحاشی، عریانی کا بازار گرم کرتے ہوئے نظر آ۔ مختلف سیاحتی مقامات پر قوم کا زوال دیکھنے کو ملا۔ اور اس ملت کے والدین خواب خرگوش کی نیند میں سو ہو تھے۔والدین پر واجب ہے کہ اپنے اولادوں کو زر کثیر سے دور رکھئے۔ بچے کے ہاتھ میں ایک ایک لاکھ کا سمارٹ فون دے کر، بیس بیس لاکھ کی گاڑیاں دے کر، جیب میں ہزاروں روپے رکھ کر ، بچے کو تباہی کے دھانے پر لے جایا جاتا ہے۔ابھی وقت ہے۔۔۔۔ سنبھالئے اپنے گھروں کو۔ فرمان ربانی ہے کہ "یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَا اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ”.(القرآن)
اردو ترجمہ”اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ،اس پر سختی کرنے والے، طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔”
اور ایک اہم مسئلہ ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ریاستی حکومت کو اس معاملے میں سخت سے سخت قانونی کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض والدین اپنے کم سن نابالغ بچوں کے ہاتھ میں گاڑی کی چابی تھمادیتے ہیں جس کا برا نتیجہ قوم کو اٹھانا پڑتا ہے۔ آ دن اس لاپرواہی سے ٹریفک حادثات وجود میں آتے ہیں۔ریاستی حکومت کو چاہیے کہ ایسے والدین کے خلاف قانونی کاروائی کریں کیونکہ اس سے پوری ملت متاثر ہورہی ہے اور خاص کر اس معاملے میں traffic police کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ وادی کشمیر میں روز اول سے ہی traffic police پر کافی ذمہ داریاں عائد ہوتی آرہی ہیں اور الحمد للہ کافی حد تک وہ احسن طریقے سے اپنا کام کررہے ہیں۔ ایسے والدین کو اس حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہیے جس میں والدین کو کہا گیا کہ شام ہوتے ہی اپنے بچوں کو گھروں میں روکا کرو۔ یعنی ہر وہ چیز جو آپکے بچوں کے لئے شر اور ضرر رساں ثابت ہو، ایسی چیزوں سے اپنے بچوں کو دور رکھئے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "رات کا اندھیرا شروع ہونے پر یا رات شروع ہونے پر اپنے بچوں کو اپنے پاس (گھر میں) روک لو، کیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلنا شروع کرتے ہیں۔ پھر جب عشاء کے وقت میں سے ایک گھڑی گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو (چلیں پھریں) پھر اللہ کا نام لے کر اپنا دروازہ بند کرو، اللہ کا نام لے کر اپنا چراغ بجھا دو، پانی کے برتن اللہ کا نام لے کر ڈھک دو، اور دوسرے برتن بھی اللہ کا نام لے کر ڈھک دو (اور اگر ڈھکن نہ ہو) تو درمیان میں ہی کوئی چیز رکھ دو۔“(صحیح بخاری)
پھلا پھُولا رہے یا رب! چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بُوٹے مَیں نے پالےہیں
رُلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں
ایسی صورتحال میں تین طبقات پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ والدین، اساتذہ اور حکومت وقت۔ لیکن زیادہ اور اصل ذمہ داری والدین کی ہی ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں دینی شعور عطا کرے اور ہمارے بچوں کو دینی فکر سے مالا مال کرے۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔