شہر سرینگر سمیت وادی کے دیگر حصوں میں آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد عوام کیلئے وبال جان بن گئی۔ آئے روز شہر سرینگر سمیت دیگر علاقوں سے کتوں کی یلغار سے متعلق خبریں موصول ہورہی ہیں جو کہ ایک تشویشناک مسئلہ ہے جس کے سدباب کیلئے ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔کئی برس قبل میونسپل کارپوریشن نے برزہ ہامہ میں ایک ایسے طبی مرکز کا قیام عمل میں لایا جہاں کتوں کو پکڑ پکڑ کر لایا جاتا جہاں ان کی نس بندی کرنے کے بعد انہیں آزاد کیا جاتا تھا۔کتے کو چھوڑنے سے قبل اس پر سرخ رنگ چھڑکا جاتا تاکہ اس بات کا پتہ چل سکے کہ کس کتے کی نس بندی کی گئی ہے اور کس کی نہیں۔یہ سلسلہ تقریباًایک مہینے تک جاری رہا ۔اس کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پراس مرکزکو بند کردیا گیا۔چنانچہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات ہر گذرتے روز بڑھنے لگے ہیں۔اس دوران سرینگر میونسپل کارپوریشن کے حکام نے اعلان کیا کہ ٹینگہ پورہ کے قریب بائی پاس پر ایک ایسے مرکز کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جہاں کتوں کی نس بندی کا سلسلہ روزانہ کی بنیادوں پر جاری رکھا جائے گا اس سے لوگوں کو یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ انہیں کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے راحت ملے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کتوں کی تعداد برابر بڑھتی جارہی ہے اور اسی رفتار سے کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔لوگ مسلسل یہ شکایتیں کررہے ہیں کہ رات کے دوران کتوں کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ پر لے جاکر چھوڑا جاتا ہے۔اس بارے میں سرینگر میونسپل کارپوریشن کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا ہے ۔نہ تو یہ کہا جارہا ہے کہ لوگوں کی شکایتیں بے بنیاد ہیں اور نہ ہی ان شکایات کو سچ مانا جارہا ہے۔ حال ہی میںڈپٹی کمشنر سرینگر کی صدارت میں ایک خصوصی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ لسجن بائی پاس کے قریب ایک مخصوص اراضی کے ٹکڑے پر ایک ایسا مرکز تعمیر کیاجارہا ہے جہاں حیوانات کو تحفظ فراہم ہوگا۔یعنی یہ مرکز براے تحفظ حیوانات کہلائے گا۔اس مرکز کے قیام کا ہر فرد بشر خیر مقدم کرتا ہے کیونکہ حیوانوں کو بھی تحفظ ملنا چاہئے لیکن اصل مسلہ یعنی کتوں کا مسلہ دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔یعنی آوارہ کتوں کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا جارہا ہے کہ ان کا کیا کرنا ہے کیا ٹینگہ پورہ میں وہ مرکز قائم کیا گیا ہے یا نہیں۔لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ابھی تک کتوں کی مستقل نس بندی کے سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔اگر ایسا کیا جاتا تو کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے میں ضرور مدد مل جاتی لیکن میونسپل حکام نہ جانے کیوں اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔بچوں ،بوڑھوں اور خواتین کے لئے یہ کتے گھروں سے باہر نکلنا ناممکن بنادیتے ہیں۔شام کے وقت لوگ مساجد کا رخ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ نماز فجر پر بھی لوگ مساجد کی طرف رخ نہیں کرتے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ سڑکوں ،گلی کوچوں ،حتیٰ کہ اب صحنوں میں بھی کتے گھومتے ہوے نظر آتے ہیں۔ کسی کی کیا مجال جو ان کتوں کا کچھ بگاڑ سکے۔بہر حال عوام کی طرف سے میونسپل حکام سے بار بار یہ مطالبہ کیاجاتا رہا ہے کہ کتوں کی مستقل بنیادوں پر نس بندی کی جاے تاکہ لوگوں کوان کے ’’ظلم و ستم‘‘سے چھٹکارا مل سکے۔