جموں صوبہ کیساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران نجی ہسپتالوں کا ایک جال بچھ گیا ہے۔ وادی کشمیر کی بات کی جائے تو شہر سرینگر کیساتھ ساتھ دیگر اضلاع اور قصبہ جات میں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد نے معیاری ہیلتھ کیئر کے نام پر نجی ہسپتال قائم کئے۔ شہر سرینگر میں ہر ایک کلومیٹر کے اندر اندر کم از کم دو پرائیویٹ ہسپتال ایسے ضرور آئیں گے جو گزشتہ برسوں کے دوران قائم کئے گئے ہیں۔ ان ہسپتالوں کے قیام سے اگر چہ سرکاری ہسپتالوں کی اُوپی ڈیز اورداخلوں سے متعلق رش میں کافی کمی دیکھنے میں آگئی تاہم طبی اعتبار سے ان نجی ہسپتالوں کے کام کاج اور موجودہ ضروریات کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا وادی بھر میں قائم کئے گئے پرائیویٹ ہسپتال، کلنک اور نرسنگ ہوم محض چند آپریشن ہی عمل میں لاتے ہیں یا وقوع پذیر ہنگامی ضروریات کو بھی پورا کرنے میں اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ اس معاملے کی تہہ تک جانے کیلئے سرکار اور متعلقہ محکمہ کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ محض ایک عدد بلڈنگ بہم رکھنے اور یہاں چند جراحی عمل میں لانے سے وہ مقصد پورا ہوتا ہے جو فوڈاینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی گائیڈلائنز نے وضع کی ہوئی ہیں۔ وفاق کی سطح پر محکمہ ایف ڈی اے نے قبل از وقت ہی پرائیویٹ ہسپتالوں کیلئے مخصوص گائیڈلائنز مقرر کی ہوئی ہیں تاکہ چھوٹی چھوٹی طبی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ ہنگامی حالات کیساتھ بھی یہ نجی ہسپتال اور نرسنگ ہوم نبرد آزما ہوسکے۔ وادی کشمیر کی بات کی جائے تو یہاں قائم پرائیویٹ ہسپتالوں میں عطیہ خون کے مراکز (بلڈ بنک)کا کہیں پر بھی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ صرف سرکاری ہسپتالوں جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، بلڈ بنکوں کو اہتما م ہے۔ شہر یا شہر سے باہر بشمول سرینگر جموں شاہراہ پر کسی بھی ناخوشگوار حادثہ میں جب بھی مریضوں کا خون سڑکوں پر ارزاں ہوتا ہے تو انہیں خون حاصل کرنے کیلئے طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے یا بعض حالات میں نازک زخمیوں کی راستے میں ہی جان چلی جاتی ہے ۔ اسی طرح شہر اور دیگر اضلاع میں قائم نجی ہسپتالوں میں بھی بلڈبنکوں کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں ہے۔ ان ہسپتالوں کے آس پاس اگر کوئی دلدوز حادثہ رونما ہوتا ہے تو زخمیوں کو ان ہسپتالوں کو منتقل کرنے کے بجائے انہیں طویل سفر طے کرکے سرکار کے مرکزی ہسپتالوں کو پہنچانا پڑتا ہے۔ ایسے میں آج تک متعدد مریضوں کی جانیں چلی گئی ہیں۔ محکمہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ان نکات کو واضح کیا گیاہے کہ کوئی بھی نجی ہسپتال اگر اس قابل نہ ہو کہ وہ بلڈ بنک قائم کرسکے تاہم وہ نزدیکی سرکاری ہسپتال کیساتھ رابطہ کرکے ہر بلڈ گروپ کے پانچ عدد پوائنٹ اپنے پاس دستیاب رکھے تاکہ اچانک رونما ہونیوالے حادثات میں زخمیوں کی بروقت طبی امداد کی جاسکے۔ مگر شومہ قسمت کہ یہاں کے نجی ہسپتالوں کی جانب سے ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ ان ہسپتالوں میں صرف مریضوں کو دو دوہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ یہاں محض ڈلیوری، گال بلیڈر وغیرہ جیسی جراحی عمل میں لاکر مریضوں سے صرف دو روز کیلئے چالیس ہزار سے لیکر سٹھ ہزار کی رقم وصول کی جاتی ہے۔حالانکہ اگر انہی مریضوں کی حالت بعض اوقات بگڑ جاتی ہے تو تب ایسے ہسپتال مریضوں سے اپنا پلو جھاڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے انہیں شہر کے سرکاری ہسپتالوں کو ہی روانہ کرتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے ارد گرد ان نجی ہسپتالوں کو کام کیا ہوکر رہ گیا ہے۔ایسے میں سرکار کو چاہیے کہ وہ ماہرین کی خصوصی ٹیم کو تشکیل دیکرنجی ہسپتالوں کے اصل اور حقیقی رول کا جائزہ لیکر مریضوں کی جانوں سے کھیلنے والوں کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائے۔