احساس زندگانی بخشنے والے نے زندگی میں دُکھ ،درد، غم اور خوشیوں کا کاروان رواں دواں رکھا ہے۔ نشیب و فراز کے مدار میں یہ زندگی ہر آن چکر کاٹتی ہے۔اسی لیے ہر غم اور ہر خوشی قلیل وقت کے مہمان ہوتے ہے۔ اصل چیز تو آزماٸش ہوتی ہے۔ کس میں کتنا صبر اور امید باقی ہے اور کون درد دل ہے افسردہ انسانوں کا .اور کس کس میں احساس موجود ہے۔ کیا وہ فکر اور ذمہ داری زندہ ہے جس کیلے آپ اور میں پیدا ہوۓ ہیں۔ اگر نہیں تو پھر کوٸی فاٸدہ نہیں ہماری زندگی کا۔کیوں کہ اسکی اطاعت کیلے کچھ کم نہ تھے قروبیاں۔۔۔آج کل ہمارے معاشرے میں جس نظارے کی منظر کشی ہو رہی ہے وہ ہے احساسِ کمتری ۔۔۔ یہ بے ضمیری اور بے حسی ہر ہر شعبے میں محسوس ہو رہی ہے۔میں کس کس دُکھ پر اشک بہاوں ۔یہاں ایک سےبڑ کر ایک درد ہے۔ اگر بات رشتہ کی کی جاۓ تو المیہ اور ہاۓ! ہاۓ! ہی کرتے رہو گۓ۔ایک ہی آغوش میں پلے ہووں میں ایک دوسری کی محبت نہ رہی وہ فکر اور لُو باقی نہیں ہے۔ ہاں اگر کچھ ہے تو وہ مطلب اور خود غرضی ہے۔ جس کے پاس جتنا مال و زر اس کا ہر رشتہ زندہ ہے۔یہ معاملہ آجکل کے بھاٸی بہنوں میں زیادہ رونما ہو رہا ہے۔ نہ جانے میری چشمِ کم سن نے کتنے احساسوں کا جنازہ نکلتے ہوۓ دیکھا ہوگا ۔جس سے یہ پتھر دل تک پگل کے رہ گیا ہے۔۔کہی بھاٸوں نے بہنوں کی وراثت پر اپنے جابرانہ پیر جماۓ رکھے ہیں ۔خود یہ بھاٸی عیش وعشرت کی زیست کے چسکے لے لے کر کسی اور عالم میں مدہوش ہوئے ہیں۔اور بہنوں کا حال خدا ہی حافظ۔۔۔۔۔ حال ہی میں ایک واقعہ رونما ہوا ۔کہ ایک مرد کی فوت گی ہوتی ہے۔ لوگوں نے غسل دینے کے بعد میت کو کندھوں پر اٹھا کر جنازہ گاہ کی طرف رخ کیا۔ ہجوم کے پیچھے پیچھے اس میت کی بہن بھی مغموم قدم اٹھا رہی تھی۔جب جنازہ ادا ہوا تو لوگوں نے میت کو دفنانا شروع کیا۔ بہن کے دل میں کرب کے دریا نے جوش مارا اور زبان پر الفاظ اظہار ہونے لگے کہا میرے بھاٸی جس طرح تو مجھے میرا حق چھین لیا۔ کرب کی زندگی میں مبتلا کیا۔ خدا کرے تجھے اسکی سزا ملے۔اس واقعہ نے میرے رونگٹے کھڑا کردیے۔ کہ کہاں وہ بہن بھاٸی کی محبت اور کہاں یہ بد دعا۔ گو کہ احساس ہی نہ رہا۔اور یہی احساس جب طالبِ علم کھو دیتا ہے۔ پھر وہ جاہل سے بھی بدتر بن جاتا ہے۔کیوں کہ عمل اور معلومات میں عرض و سمإ کی مصافت کا فاصلہ ہے۔ طالبِِ علم میں احساس اگر قاٸم رہے تو شہرِ آشوب شہرِ آباد میں تبدیل ہوجاۓ گا۔ معاشرے میں جتنے بھی خرافات، رسومات اور بدعاتوں نے جنم لیا ہیں۔ ان سارے کے ساروں کی موت بس طالبِ علم کی اچھی عمل۔ اسی لیے علم حاصل کرنے والے کو یہ احساس رہنا چاہیے۔ کہ مجھے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ بد فعلی منشیات وغیرہ میں گیر نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ قوم کا اثاثہ اور قوم کا معمار میں ہی ہوں۔ ہمار تاریخِِ حال کے آٸینہ پر ہزاروں قصوں کی عکس ہیں۔کہ طالبِ علم فقط نام کا طالبِ علم رہا ہے۔اور کام گواروں اور جاہل انسانوں جیسا کر رہا ہے۔ ڈرگس اور طالبِ علم ، چوری اور طالب علم یہ بلکل بھی ایک ساتھ نہیں ہوسکتے ہے۔ لیکن حیف صد حیف آجکل یہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جو طالبِ علم منشیات کے جال میں پھسا ہو وہ کیا خاک اپنے قوم کی فکر کرے گا۔جسے اپنے آپ کی خبر نہ رہیے۔ عجیب عیجب کاموں میں ملوث ہوۓ ہیں یہ علم کا متلاشی۔ کیوں کہ احساس ہی جب نہ رہا۔ وقت پانی کی طرح ضائع ہو رہا ہے کسی کو احساس ہی نہیں کہ میری کیا ضرورت ہے اپنے قوم کے لیے۔ ہمارے بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ جس انسان میں احساس باقی ہے وہی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ اور جس میں احساس نہ رہا وہ خالی سانس لے رہا ہے باقی اسکی موت سو دفعہ ہوچکی ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر ایک کو یہ احساس لازمی ہونا چاہیے کہ میرا مقصدِ حیات کیا ہے۔ کیا ہم یوں یہاں آۓ ہیں؟۔ کیا کھانا پینا اور سونا ہی مقصد ہے؟ کیا مال و زر کے خزانے جمع کرنے ہیں؟ یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سوالوں کے جوابات فقط محسنِ انسانیت سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اور کہی بھی نہیں۔ جس کو بھولے بیٹھے ہے۔ کیوں کہ ہمارے اندر احساس ہی نہ رہا۔ ہم نے اسکی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے اور نٸے نٸے عجوبات ڈونڈ رہیے ہیں۔ دورِ حال کا بنی آدم دولت کمانے میں اتنا محو ہوا ہے کہ اسے اب احساس نہ رہا کہ میرا بھی کوٸی خالق ہے۔ جس کے فرمان بجا لانے ہیں۔ مرنا ہے قبر میں اترنا ہے اور پھر زندگی کا حساب بھی دینا ہے۔ پلِ صراط سے گزرنا ہے۔ جنت اور جہنم کا فیصلہ بھی سننا ہوگا۔ احساس ہی نہیں۔ ہمروز اخبارات پڑھتے ہیں۔لیکن دستور حیات کی جانب دیکھتے تک نہیں ہے۔ اور ہم کامیاب ہونا چاہتے ہے۔ جو کہ ناممکن ہے۔ احساس ایک اچھی خاصی دولت ہے۔ یہ عطاٸی چیز ہے۔ اللہ تعالی سے دعا کرے کہ ہمیں احساس کا خزانہ نصیب ہو جاۓ۔
از قلم۔ طارق اعظم کشمیری
ساکنہ۔ ہردوشورہ ٹنگمرگ