تحریر:-ہلال بخاری
میں نے ایک دن دیکھا کہ ایک دیوانہ مجنون گلیوں میں آوارہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بے قرار روح کی طرح گوم رہا تھا ۔ اس کی بے چینی اور بےقراری قابل رحم تھی اور وہ چیخ چیخ کر لوگوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہا تھا، "ظالم اور جابر خود کو مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے لایق بھی نہیں۔ ۔۔۔۔۔اے لوگو تم کیا خود کو زندہ اور عقل مند تصور کرتے ہو ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم کو لگتا ہے کہ تم اللہ کو بھی اپنی چالاکی سے دوکھا دے سکتے ہو ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ تم بزدل اور ڈرپوک ہو۔۔۔۔۔تم آسان اعمال کرکے فر سے جنت میں جانا چاہتے ہو ۔۔۔۔۔۔ فررررر۔۔۔۔۔۔کیا یہ اتنا آسان ہے ۔۔۔۔کیا یہاں آگ میں جلنے کے بغیر جنت کی ٹھنڈی ہوا میں مزے کرو گے ؟. . تم سب یا تو پاگل ہو یا مردہ۔۔۔۔۔ہاں ہاں تم مردہ ہو ۔۔۔۔جاکے قبروں میں سو جاو۔۔۔۔۔۔۔۔جاو
پھر وہ زور سے ہنستا تھا۔ ” ہاہاہاہا”
لوگ اُس کی باتیں سُن کر اس پر ہنس رہے تھے۔کچھ خوف بھری نگاہوں سے اسے تاکتے تھے اور اس سے دور رہنے میں ہی اپنی آفیت سمجھتے تھے۔ میں اسکی باتیں سُن کر نہ جانے کیوں حیران ہوا میں نے جب اُس کے بارے میں پتا لگایا تو جو معلوم ہوا وہ کہانی یہ ہے،
کانترے خان نام کا ایک شخص جو خود کو قوم کا خادم نہیں بلکہ قوم کا مالک سمجھتا تھا اپنی دولت اور طاقت کے نشے میں چور تھا اور اپنی مرضی کو ہر ایک پر تھوپنا اپنا بنیادی حق سمجھتا تھا۔ وہ ایک ریاست کی حکومت کا ایک اہم رکُن تھا۔ اُسکے علاقے میں اسکا اپنا قانون تھا ، اپنا جیل اور اپنی فوج تھی۔ وہ جس کو چاہتا خود سزا دیتا۔ اس نے ایک دن ایک لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تو اسکے بھائیوں نے ملک کی عدالت سے انصاف کی درخواست کی۔ کانترے خان نے اپنا پاور استعمال کرکے نہ صرف اس کیس کو برطرف کروایا بلکہ ان دو لڑکوں پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے اس کے ایک بکرے کو مار ڈالا ہے جو اس نے بکر عید پر قربانی کے لئے رکھا تھا۔ لوگ اگرچہ کانترے خان سے اتنی عقیدت نہ رکھتے تھے لیکن قربانی کے بکرے کا مارا جانا انکو اپنے مزہب پے حملہ لگا۔ کانترے خان کی فوج نے جب سب کے سامنے بے دردی سے ان دو لڑکوں کو پیٹا اور پھر زندہ جلاکر راکھ کا ڈیر بنایا تو اکثر لوگوں کو لگا کہ ان کو انکے گناہوں کی سزا ملی ہے۔ لوگوں نے ایک جانور کی زندگی کو دو انسانوں کی زندگیوں سے بھی بہتر تصور کیا کیونکہ اس پر مزہب کی مہر لگی تھی ۔ وہ یہ بھی نہ سمجھے کہ ظالم لوگوں کا یہ پرانا دندھا ہے کہ وہ مزہب کا استعمال کرکے عام لوگوں کو بےوقوف بناتے ہیں اور لوگ اپنے وہم کو بھی اپنے ایمان کا جز تصور کرنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ ڈر کی وجہ سے خاموش رہے۔ کچھ نے سوچا کہ ہم ہی کیوں بے جا مصیبت مول لیں گے۔
اسی طرح سے ہمارے وہم ،ڈر اور بے نیازی کی وجہ سے نا انصافی کھل کر ہمارے اردگرد ناچتی ہے اور ہم اپنی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر خود کو شتُر مرغ کی طرح اُس وقت تک محفوظ سمجھتے ہیں جب تک خود ہماری باری آجاتی ہے۔
لیکن اس علاقے میں ایک انسان ایسا بھی تھا جو یہ ناانصافی برداشت نہ کر سکا ۔ اسکا نام تھا ستارا خان۔غریب تھا مگر پرجوش۔ اس نے قسم کھائی کہ چاہے جو بھی ہو کانترے خان اور اسکے ساتھیوں کو انکے کرتوتوں کی سزا دلوا کر ہی رہے گا۔ اگر چہ وہ جانتا تھا کہ یہ آسان نہ ہوگا مگر نہ جانے کیوں اسکے دل نے اسکو دوسروں کی طرح چین سے بیٹھ کر تماشا دیکھنے کی اجازت نہ دی اور دل ایسی چیز ہے جو ہم کو کبھی سوئے ہوئے لوگوں میں جگا کر کھیل تماشا بناتا ہے تو کبھی اندھوں کی بستی میں سولی پر چڑھا دیتا ہے ۔
ستارا خان نے سوشل میڈیا پر ایک لایو ویڈیو وائرل کرکے کانترے خان کے ظلم و جبر کی داستان ہر اور پھیلا دی۔ ویڈیو میں اس جابر خان کے خفیہ جیل اور ظالم فوج کا ذکر تھا۔ سب یہ خبر دیکھ کر چونک گِئے۔ ریاست کی سرکار کو اب کانترے خان کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔ پولیس نے دعوا کیا کہ چھاپے کے دوران انکو کسی بھی ایسی جیل یا فوج کے بارے میں کچھ شواہد نہ ملے جن کا دعوا ویڈیو میں ہوا تھا۔ لوگ اس دعوے کو سن کر اور سب کچھ جاننے کے باوجود بھی خاموش رہے۔ کچھ ستارا خان کی بے وقوفی پر ہنستے رہے تو کچھ اس کی تقدیر کو کونستے رہے۔
اگلے کچھ دنوں میں ستارا خان کی بیوی سیانی خان ، انکی جوان بیٹی نجما اور دو معسوم بچے غائب ہوگئے۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ کس کا کرا دھرا ہوگا مگر کس کی مجال تھی کہ لب کشائی کرتا۔ڈر نے سب کے جیسے ہونٹ ہی سی دیے تھے۔ صرف ستارا خان تن تنہا چلاتا رہا۔ ” لوگو اس ظالم نے میرے گھر والوں کو اگوا کر لیا ہے۔ میری مدد کرو تاکہ انکو بچایا جاسکے۔”مگر کسی نے جیسے کچھ نہ سنا۔ اپنے گھر کے دروازے بند کرکے سب نے کہا، "ستارا نے خود مصیبت کو دعوت دی ہے۔اسکو اسکی سادگی مہنگی پڑی ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں”
کچھ روز بعد ایک دل دہلادینے والی ویڈیو وائیرل ہوئی۔ اس میں ستارا خان کی بیوئی سیانی خان اپنے ہم وطنوں سے رو رو کے مخاطب ہو کر کہہ رہی تھی،” میرے ہم وطنو میں اپنے اولادوں کے سمیت کانترے خان کی جیل میں بند ہوں۔ وہ ہم پے بے انتہا ظلم ڈھا رہا ہے۔ اسکی فوج ہمارے سامنے ہماری بیٹی کو جنسی ذیاتی کا نشانہ بناتے ہیں۔ کیا تمہاری بیٹیاں نہیں ہیں ؟ ہماری خطا کیا ہے ؟ یہ کہ میرے شوہر نے سچ بولا۔ کیا سچ بولنا اب اس ملک میں گناہ بن گیا ہے ؟آپ سب ایک ہوکے اس ظلم کا مقابلہ کیوں نہیں کرسکتے ہو ؟ کیا آپکو لگتا ہے کہ اللہ اس کے بارے میں آپ سے کچھ نہ پوچھے گا ؟ سب لوگ یہ ویڈیو دیکھ کر دہل گئے مگر سب کو اپنی لاچاری کا احساس ہوا۔ کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ کانترے خان اور اسکی سفاکی کا کا مقابلہ کرسکے۔ کوئی اتنا سادہ نہیں تھا کہ ستارا خان کی طرح سچ بول کے آفت کو مول لیتا۔ کچھ دن بعد لوگوں کو ایک مقامی کنویں میں اس بے چاری سیانی خان کی اور اسکے دو بیٹوں کی لاشیں ملیں۔ سب کے روح ان جلی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر دہل گئے جن کو جلاکر مسخ کرکے کنویں میں پھنک دیا گیا تھا۔ مگر لوگ کیا کرتے۔ انہوں نے اب بھی ہمیشہ کی طرح خاموش رہنے میں ہی اپنا فایدہ سوچا۔
ستارا خان یہ سب سہتا رہا۔ اسکی بیوی اور بچوں کے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر اس نے لوگوں سے زار زار روکر مدد مانگی کہ اسکی بیٹی کو کم از کم کانترے خان اور اس کی فوج کی حیوانیت سے بچانے کے لئے اُسکی حمایت کریں، ” دیکھو نہ آپکو ہتھیار اُٹھانے ہیں نہ پتھر صرف سچ بولنا ہے اور سچ بولنا وقت کی ضرورت ہے۔”
لیکن کسی میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ سچ کا ساتھ دے دے سکے۔ سب نے سوچا ایسے وقت میں خاموش رہنے میں ہی بھلائی ہے۔ وہ اپنی داد بداد لے کر ملک کے ایک حاکم اعلیٰ سے ملا تو اُس نے ستارا خان کو ڈانٹ کر کہا ، ” کیا ضرورت تھی تم کو اُس سے الجھنے کی ؟ ۔۔۔کانترے خان ہمارا رہنما ہے۔۔لیڑر ہے ۔۔۔۔بلکہ وہ خود ہی سارا قوم ہے۔” یہ سُن کر ستارا خان نے عرض کیا ، "صاحب جی کوئی ایک انسان قوم نہیں ہوتا اور نہ کوئی ایک قوم کسی ایک انسان کے ہونے سے عظیم ہوتی ہے۔ قوم کی تقدیر کا فیصلہ ہزاروں افراد کی قربانیوں اور لاکھوں افراد کی محنت سے ہوتا ہے۔”وہ حاکم یہ سُن آگ بگولا ہو کر بولا ، ” ستارا خان تم پاگل ہوئے ہو۔۔۔۔تم کو لگتا ہے تم کانترے خان کا مقابلہ کرکے اسے ہرا سکتے ہو ۔۔۔تم اُس کے سامنے کوئی حثیت نہیں رکھتے ۔۔۔۔وہ حاکم ہے اور پاورفول ہے۔ تم ایک عام آدمی ہو اور ایک عام آدمی کی قیمت ہمارے نزدیک ایک ووٹ سے زیادہ کچھ نہیں” ستارا خان نے روتے گڑگڑاتے ہوئے کہا، "صاحب جی میں کیسے خاموش رہوں میری بیوی اور بیٹوں کے ساتھ کیا کیا ہوا اور میری بیٹی آج بھی ان درندوں کے پاس ہے۔۔۔ مجھے چین کیسے آسکتا ہے ؟ ”
حاکم نے غصے سے پوچھا ،”تو تم نے کیوں بے جا کانترے خان کے خلاف زبان کھولی ؟”
” میں نہ پہلے ظلم برداشت کرسکتا تھا نہ اب کرسکتا ہوں” ستارا نے جواب دیا۔
یہ سن کر حاکم نے کہا ، ” یہی تمہارا دیوانہ پن تم کو برباد کر گیا ہے۔۔۔۔میں ایک پاگل کی کیا مدد کروں گا”
اس کے بعد اس نے اپنے آدمیوں کو بلا کر ستارا خان کو گھسیٹ کر باہر پھنکوا دیا۔ ستارا خان چیختا رہا چلاتا رہا۔۔۔۔۔”کچھ تو رحم کرو مجھ پر نہیں تو میری معسوم بیٹی پر تو رحم کرو ۔۔۔۔ ہائے اسکا کیا ہوگا ” وہ روتا رہا بلکتا رہا مگر یہاں کسکو اس پر رحم آتا۔
ستارا خان مدد کی فریاد لے کر گھر گھر اور گلی گلی پھرتا رہا مگر کون تھا جو اس کی خاطر مصیبت کو خود دعوت دیتا۔
اپنی بے انتہا بے بسی اور لاچاری کی دباوٹ نے آخر کار اس کو لوگوں کی نظروں میں دیوانہ بنا دیا اور وہ اپنے ہوش و حواس کھو کر لوگوں سے جگڑنے لگا اور انکو برا بھلا کہنے لگا ۔
” لوگو تم اپنی بے غیرتی کی پرستش کرکے خود کو جنت کا حقدار سمجھتے ہو۔ کیا تم میں اتنی بھی ہمت نہ رہی کہ تم اپنی بے شرمی کا سامنا کرکے خود کو ملامت کرو اور اپنی مری ہوئی مردانگی پر ماتم کرو۔”
کچھ لوگ اس کی باتیں سُن کر کبھی کبھی شرمندگی بھی محسوس کرتے تھے۔ مگر اکثر لوگوں کو غصہ آتا تھا اور وہ اس پر چلاتے تھے اور اُسے اپنے سے دور بھگاتے تھے۔ وہ ان کے لئے ایک بدنما داغ سے کم نہ تھا جو انکو انکی بدصورتی سے گویا واقف کراتا تھا۔ اُس کا دیوانہ پن اُن سب کی زندگیوں کے لئے اجیرن بن گیا تھا۔
ہلال بخاری
ساکنہ ہردوشورہ کنزر