بابر نفیس(ڈوڈہ، جموں)
اگرچہ جموں کشمیر کی بات کی جائے تو بے روزگاری سے لوگ کافی زیادہ پریشانی کے شکار ہیں۔جبکہ جموں و کشمیر کے چناب ویلی میں چھ سے زائد پروجیکٹوں کا کام جاری ہے۔ ان پروجیکٹوں میں چار ضلع کشتواڑ میں بنائے جا رہے ہیں۔وہیں دوسری جانب ضلع ڈوڈہ میں ایک پروجیکٹ کا کام عرصہ دراز سے بند ہے۔اگرچہ ضلع ڈوڈہ کے اس پاور پروجیکٹ جو ضلع ڈوڈہ کے دوندی میں واقع ہے۔ یہ پروجیکٹ 48 میگاواٹ کی حیثیت سے تیار کیا جانا ہے۔تمام لوگوں کا یہی خیال ہے کہ اگر اس پروجیکٹ کا کام شروع کیا جاتا تو شاید ضلع ڈوڈاکے پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدور طبقے کے لیے روزگار کے وسائل پیدا ہوتے۔وہیں دوسری جانب بہت سارے نوجوان جنہوں نے کئی طرح کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جو یہاں پروجیکٹ میں کام کرسکتے ہیں ان نوجوانوں کے لیے بھی روزگار کے وسائل یہی پیدا ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ پہاڑی علاقہ جات ہو یا میدانی علاقہ، ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں بچے انجینئرنگ کر کے کالجوں سے فارغ ہوتے ہیں۔مگر روزگار نہ ملنے کی وجہ سے یہ تمام انجینئر دربدربھٹک رہے ہیں۔اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن لیاقت حسین کہتے ہیں کہ 2014 کی شروعات میں اس پروجیکٹ کا کام شروع کیا گیا تھا۔کام شروع ہوتے ہیں یہاں ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار نوجوان کام کرنے کی غرض سے پہنچے۔ جبکہ ابتدائی کام شروع کیا گیا تھا تو سینکڑوں کی تعداد میں ہی یہاں لوگوں کو کام کرنے کا موقع ملا۔انہوں نے بتایا کہ اگرچہ اس پروجیکٹ کا کام شروع کیا جاتا تو ایک ہزار سے زائد لوگوں کو یہاں پر روزگار ملتا۔ جبکہ ضلع ڈوڈہ میں ایک ہی پروجیکٹ ہے۔اس پروجیکٹ کو لے کر عوام کی کافی ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر اس پروجیکٹ کا شروع کرے تاکہ بہت سارے نوجوان کو روزگار فراہم کیا جاسکے۔
وہیں ایک مقامی مزدور محمد الطاف،جنہوں نے ابتدائی چھ مہینے اس پاور پروجیکٹ میں کام کیا تھا، نے بتایا کہ جموں و کشمیر میں بے روزگاری عروج پر ہے۔روزگار کے وسائل کہیں نظر نہیں آتے سوائے ان پروجیکٹوں کے جو چناب ویلی میں بنائیے جا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ چناب ویلی کے ضلع کشتواڑ میں چار پروجیکٹوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ کام کر رہے ہیں جس میں بہت سارے لوگ جموں کشمیر سے وابستہ ہیں اور بہت سارے لوگ بیرو ریاستوں سے بھی وابستگی رکھتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ مزدوں کو بہت خوشی ہوتی ہے جب انہیں کہیں نہ کہیں روزگار کے وسائل نظر آتے ہیں۔خاص طور پر جب انہیں دوسری ریاست میں بھٹکنے کی جگح وہ روزگار اپنے علاقعہ میں ہی مل جائے تو ان کی خوشی بڑھ جاتی ہے۔ان کے علاوہ جب ہم نے پروجیکٹ میں جونیر انجینیرکی غرض سے کام کرنے والے ایک نوجوان اجے کمار سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقے دوندی میں واقع پروجیکٹ میں چھ مہینے کام کیا۔انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ یہاں ضلع ڈوڈہ کے ساتھ ساتھ ریاست کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے انجینئر اور جونیر اسٹیٹ کام کر رہے تھے۔ہمیں یہاں کام کرنے کے لئے تمام تر کا سامان مہیا کیا جا رہا تھا۔اور ہمیں امید تھی کہ اس کام میں ہم آنے والے دس سال اپنی زندگی بہترین انداز سے بسر کریں گے۔لیکن اچانک ایک دن مقامی بے روزگار نوجوانوں نے احتجاج کیا کہ ہمیں بھی روزگار فراہم کرنے کے لئے کوئی منتقل پالیسی بنائی جائے جس کے نتیجے میں ہمارے ماہرین اور پراجیکٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے یقین دلایا کہ آنے والے وقت میں آپ کو روزگار فراہم کیا جائے گا لیکن کمپنی کی کچھ مجموعی مجبوریاں رہیں جس کی وجہ سے کام بند کیا گیا۔انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ کمپنی آنے والے وقت میں اس کام کو پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ بے روزگار مزدوروں کے ساتھ ساتھ یہاں بے روزگار نوجوانوں کو بھی کام کرنے کا موقع ملے گا۔ہزاروں نوجوان اپنی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود گھروں میں دربدر ہیں اوربیروں ریاستوں میں کام کرنے کی جاتے ہیں لیکن کام حاصل نہیں ہوتا ہے۔اگر اس پروجیکٹ میں پھر سے کام شروع ہو گا توسبھی کو گھر میں ہی روزگارفراہم ہو سکے گا۔ان کے علاوہ جب ہم نے مزدور یونین لیڈر نشاط قاضی سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ دوندی پاور پروجیکٹ میں عرصہ چھ سال قبل کام شروع کیا گیا تھا۔کام کی ابتدا ہی میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم ہوا تھا۔لیکن جب کام بند کیا گیا تو ان لوگوں کی روزگار میں بھی بہت ساری اثرات پڑ گئے۔انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں جب ہم نے ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا تھا کہ اس کام کو پھر سے شروع کیا جائے گا لیکن ابھی تک اس کو لے کر کوئی بھی سوراگ نظر نہیں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے ہے کہ اگر اس پروجیکٹ کا کام پھر سے شروع کیا جاتا تو بہت سارے بے روزگاروں کو یہاں پر روزگار ملے گا۔ساتھ ہی پاور پروجیکٹ میں بننے والی بجلی بیرون ریاست اور بیرون ملکوں میں بیچی جاتی جس سے ہندوستانی معیشت کو فائدہ ہوتا۔
ان کے علاوہ جب ہم نے پروجیکٹ کے چیف انجینئر ویکرم کتوال سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کا کام بہت پہلے شروع کیا گیا تھا۔ اگر کام لگاتار جاری رہتا تو آج تک یہ پروجیکٹ مکمل بھی ہو گیاہوتا۔ انہوں نے کہا کہ دورانے کام بھی مقامی لوگوں نے کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے یہاں پر کافی زیادہ پریشانیاں کھڑی کیں۔حلانکہ ان سارے مسلہ کو مل کر حل کر لیا گیا تھا۔لیکن پھر کچھ مجبوریوں کی وجہ سے آج تک کام مکمل نہیں ہوسکا۔ انہوں نے بتایا کہ آنے والے کچھ ہی دنوں میں ہماری انجینئر وں کی ٹیم وہاں پردوبارہ جا کر معائنہ کریں گی۔امید ہے کہ اپریل کے مہینے سے دوبارہ کام شروع ہو جائے گا۔ جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کتنے لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑا پروجیکٹ ہے یہاں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے جبکہ پروجیکٹ مکمل ہونے کے بعد بھی کچھ لوگوں کو مکمل طور پر روزگار فراہم ہوگا۔بہت سارے لوگ مکمل طور پر پروجیکٹ میں ہی کام کر سکتے ہیں۔جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پانچ سال تک یا آٹھ سال تک کام کر سکتے ہیں جب تک پروجیکٹ مکمل کیا جا سکتا ہے۔بہرحال، امید کی جانی چاہئے کہ یہ پروجیکٹ نہ صرف جلد شروع ہوگا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مقامی نوجوانوں کے لئے روزگار کا ذریعہ بھی بنے گا۔
(چرخہ فیچرس)