سعدیہ ثناء( پونچھ)
سرحدی کشیدگی کی وجہ سے سرخیوں میں رہنے والا ضلع پونچھ جہاں مختلف پریشانیوں سے دوچار ہے وہیں یہاں آ بادبے بس باشندوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رہنا پڑ رہا ہے۔ کلائی گاؤں،جو ضلع پونچھ اور تحصیل حویلی کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، اس کی آبادی تقریبا چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ تعلیم کے اعتبار سے یہ گاؤں صدیوں سے کافی آگے رہا ہے۔تعلیم کے میدان میں اس چھوٹے سے گاؤں کے لوگوں نے بڑی ترقی کی ہے، جس کی وجہ سے آج تقریباً ہر محکمہ میں ہی کلائی گاؤں کا ملازم کسی نا کسی بڑے عہدے پر فائز ہے۔ اس میں کوئی شک کی بات نہیں، اگر ایسے لوگ گاؤں میں موجود رہے گئے، تو گاؤں کی زنیت بنیں رہے گے اور تعلیم یافتہ لوگوں کی وجہ سے گاؤں اور ترقی کرے گا، آئندہ نسل کا رحجان بھی پڑٖھائی کی طرف بڑھے گا۔ لیکن افسوس، کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔اس ترقی یافتہ دور میں بھی پونچھ کا یہ گاؤں پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے، جس کے باعث ان لوگوں کو یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں راقم نے جب گاؤں کے کچھ لوگوں سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ وہ کن پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔جن لوگوں کے پاس مال مویشی ہوتے ہیں وہ اپنے مال مویشیوں کو لیکر بہت دور پانی پلانے کیلئے جاتے ہیں اور کئی لوگ برتنوں میں پانی لاکر مال مویشیوں کو پلاتے ہیں اور جن لوگوں نے کپڑے دھونے ہوتے ہیں وہ اپنے کپڑے لے کر دریا پر جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہایت ہی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سلسلے میں میری ملاقات کچھ ایسے بزرگ مرد و خواتین سے ہوئی جنہوں نے یہ بتایا کہ ہم پچاس سال سے اسی طرح پانی لا رہے ہیں۔ ان میں محمد صدیق جن کی عمر 70 سال ہے، ان کا گھر کلائی ٹاپ پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں پورے دن میں چار بار بہت دور دراز سے پانی لاتا ہوں اور وہ پانی مال مویشی اور گھر کی ضروریات کے لئے استعمال کرتا ہوں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ میرا، ایک ہی بیٹا ہے جو باہر ملازمت کر رہا ہے اور اس کے بچے پانی نہ ہونے کی وجہ سے پونچھ شہر میں کرائے پر رہتے ہیں اور اب میری صحت اجازت نہیں دیتی کہ میں دور دراز سے پانی جا کر لاؤں۔ اس طرح میرا گزارا کرنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے۔وہیں ایک اور باشند ے محمد شفیع جن کی عمر 80 سال ہے، انہوں نے بتایا کہ میرے دو لڑکے ہیں جو باہر نوکری کرتے ہیں، میں بچپن سے ہی پانی دور دراز سے لا رہا ہوں اور میری ایک بیٹی ہے جو پیدائش سے ہی معذور ہے۔ وہ ہاتھوں کے بل چلتی ہے اور کبھی کبھی مجھے پینے کا پانی بھی مانگ کر لانا پڑتا ہے اور اس طرح زندگی گزارنا میرے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔وہیں حسن بی جو ایک بیوہ عورت ہے جن کی عمر 70 سال ہے، انہوں نے بھی بتایا کہ وہ بھی اسی طرح کئی سالوں سے پانی اٹھا کر لا رہی ہیں اور کپڑے دھونے کے لئے بہت دور دراز جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ سالوں سے میرے جسم میں ایسی کمزوری ہو گئی ہے جس پر ڈاکٹر نے بتایا کہ تجھے کوئی کام نہیں کرنا ہے اور اسے میرا اٹھنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا اسی طرح میرے جیسی پورے گاؤں میں کئی خواتین ہیں جو اس طرح کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔
اس کے بعد کلائی گاؤں کی ایک اور عمر رسیدہ خاتون جن کی عمر تقریباً 90 سال کے لگ بھگ ہے ان سے ملاقات ہوئی اور یہی ان سے بھی سنا۔ وہ کہتی ہیں،جب میں دس سال کی تھی اس وقت میں گھر کی ضرورت کے لئے دور دراز سے پانی لاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میری اب یہ گزارش ہے کہ ہماری بات حکومت تک پہنچائی جائیں کیونکہ اب عورتوں کی وہ حالت نہیں ہے، کہ وہ بہت دور دراز سے گھر کی ضروریات کے لئے پانی لاسکیں۔ان کا کہنا ہے میں نے یہاں عورتوں کو بہت مصیبت میں دیکھا ہے جن کی جسمانی حالت اب اجازت نہیں دیتی کہ وہ اتنی دور دراز سے پانی جا کر لائیں اور پھر اس میں گھر کا گزارا کریں۔اسی حوالے سے ایک مقامی نوجوان الیاس کہتے ہیں کہ یہاں محکمہ واٹر سپلائی نے ہر محلے میں پائپیں تو بچھائی ہوئی ہیں جن پر کروڑوں روپے خرچہ بھی ہوا لیکن اب پتا چلا کہ یہ لگانے کے بعد لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ دریا سے لفٹ لگا کر تمام محلوں میں پانی سپلائی کیا جائے گا۔ لیکن ان پائیپوں کو بھی کافی سال گزر گئے ہیں مگر ابھی تک ان لوگوں کی مشکلات حل نہیں ہوئی اور صورت حال یہ ہے کہ جو لوگ مالی حیثیت سے ٹھیک ہیں وہ گاڑیوں کے ذریعے پانی ڈلواتے ہیں اور جو غریب عوام کیلئے نہایت ہی مشکل نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے، کہ وہ اپنے مال مویشی اور گھر کی ضروریات کیلئےء پانی کا ٹینک ڈلوا کر گزارا کریں۔
اسی حوالے سے جب گاؤں کی سرپنچ محترمہ فیروز النساء سے بات ہوئی، تو انہوں نے بتایا ہمارے گاؤں کے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں، تعلیم کے سلسلہ میں گاؤں کا نام اونچی سطح پر ہے۔یہ گاؤں کے لئے قابل فخر کی بات ہے۔ لیکن اس گاؤں میں سب سے بڑی دقت پینے کے پانی کی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی ہمارے گاؤں کے لوگ پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں، وہ مزید کہتی ہیں گاؤں کے لوگوں کے پاس صرف پانی کا ایک چشمہ ہے جس سے صرف تین مہینے ہی پانی کی سپلائی ہوتی ہے۔ نو مہینے یہ لوگ پانی خرید کر پیتے ہیں اور اپنے مال مویشیوں کو بھی خرید کر پانی پلاتے ہیں۔جبکہ گاؤں میں پینے کا پانی دو ہزار روپے میں تین ہزار لیٹر ملتا ہے۔وہیں کچھ لوگوں کے مطابق گاؤں کے ٹاپ پر یہ پانی تین ہزار تک ٹینکر والے پہنچاتے ہیں، جو پانی خریدنا، ہر کسی کے بس میں نہیں۔ اسی حوالے سے سرپنچ صاحبہ بتاتی ہیں کہ حکومت کی طرف سے آج تک پانی کیوں نہیں مل رہا ہے اس کی نشاندہی کیلیے کچھ چیزوں کو جاننا اور پرکھنا ضروری ہے۔جس میں ٹینکر مافیا کا بھی محکمہ جل شکتی کے اوپر کافی اثر رسوخ ہے۔وہیں نیشنل رورل واٹر اسکیم کے تحت گاؤں کے لیے 2 کروڑ 95 لاکھ کی رقم واگزار کی گئی۔ لیکن محکمہ کی طرف سے لاپرواہی برتی گئی۔ اس کے بعد لینگویشن اسکیم کے تحت پانچ کروڑ روپے دوبارہ منظور کئے گئے۔جس کے تحت صرف پیسہ ہضم کرنے کیلئے پائپ لائن بچھائی گئی جبکہ مکینیکل محکمہ کی طرف سے ایک پیسے کا بھی کام نہیں کیا گیا اور پائپ لائن کو دس سال ہوگئے ہیں وہ بھی ناکارہ ہو چکے ہیں، انہوں نے بتایا گاؤں کیلئے جل جیون مشن کے تحت بھی چھ کروڑ روپے کی رقم واگزار کی گئی۔ لیکن محکمہ کی طرف سے اس کا نہ تو کوئی پلان (ڈی پی آر) مرتب کیا گیا اور نہ ہی کوئی ٹینڈر لگایا گیا۔
وہ مزید کہتی ہیں حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ یہاں ساری اسکیموں کے تحت گورنمنٹ کی طرف سے فنڈ واگزار کئے گئے لیکن موقع پر کام شروع آج تک نہیں ہوا۔اس کی خاص وجہ یہ بھی رہی کہ گاؤں کی کوئی شکایت سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ میڈیا نے بھی گاؤں کا دورہ کیا اور لوگوں کے رجحانات کیمرہ پر ریکارڈ کئے لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل پایا۔انہوں نے کہا گاؤں سے پڑھنے کے بعد جو لوگ اعلی عہدوں پر فائز ہوئے وہ گاؤں سے ہجرت کر کے شہروں میں بس گئے۔ اس سے بھی گاؤں کی تعمیر و ترقی کو کافی حد تک دھچکا لگا۔اگر گاؤں کا کوئی آدمی محکمہ کے پاس فریاد لے کر جاتا بھی ہے تو چند اثر رسوخ والے لوگوں کی طرف سے ڈرا دھمکا کر واپس کردیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ لوگ محض مالک کے رحم و کرم پر پانی کے بغیر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔اسلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ قدرت کی اس عظیم نعمت کو لوگوں تک پہنچا کر اپنے فرائض کو پورا کرے۔(چرخہ فیچرس)