یہ بات 1965 کی ہے جب لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ گاڑیوں کی تعداد بہت کم تھی اور اکثر امیر لوگ ہی گاڑیوں میں سفر سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ نوید نے ننھیال جانے کی ضد کی۔ نوید ایک گاؤں میں رہتا تھا اور اس کا ننھیال گاؤں سے تقریبا دس میل کی دوری پر تھا۔ چنانچہ نوید اپنے باپ کے ہمراہ ایک جنگل کے راستے سے ننھیال کی طرف چل دیا۔ جنگل نہایت ہی خوبصورت تھا جس میں طرح طرح کے سرسبز پیڑ، خوبصورت پہاڑ، رنگ برنگی پرندے اور جنگلی جانور رہتے تھے۔ جنگل کے بیچ ایک خوبصورت ندی بہہ رہی تھی۔ نوید کو پیاس لگی اور اس کے باپ فردوس نے نہر کے میٹھے اور ٹھنڈے پانی سے نوید کی پیاس بجھائی۔ باپ اور بیٹا جنگل کے راستے، مزے سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے کہ اچانک نوید کی نظر ایک خوبصورت سفید کبوتر پر پڑی جو کہ جنگل میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ دراصل اس کو کبوتر کے گھونسلے میں چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور یہ کبوتر اپنے بچوں کے لئے کھانے کا انتظام کر رہا تھا۔ اس کے بچے گھونسلے میں کبوتر کے آنے کے منتظر تھے۔ نوید نے کافی ضد کی اور رونے لگا۔ نوید کو یہ پرندہ بہت پسند آیا تھا اور اپنے باپ فردوس سے اسے پانے کی ضد کر رہا تھا۔ نوید چاہتا تھا کہ یہ کبوتر اس کا ہوجائے اور وہ اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔ فردوس نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی پر نوید کی ضد کے سامنے وہ بے بس تھا۔ فردوس نے مجبور ہو کر اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے بالآخر کبوتر کو پکڑ ہی لیا۔ کبوتر اب نوید کی قید میں تھا۔ نوید بہت خوش تھا اور وہ اس پرندے سے دوستی کرنا چاہتا تھا۔
کبوتر بڑا پریشان تھا۔ اس کو اپنے بچوں کی یاد ستا رہی تھی جو کہ کھانے کے انتظار میں تھے اور انہیں یقین تھا کہ کبوتر ضرور آئے گا اور اپنے ساتھ ان کے لیے کھانا لے کر آئے گا لیکن اس بات سے نوید اور فردوس بالکل بے خبر تھے۔ نوید کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس نے اپنے باپ سے واپس گھر جانے کی ضد کی۔ وہ ننھیال بھول چکا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ جلد از جلد اپنے گھر جاکے اپنی اماں کو یہ خوبصورت کبوتر دکھاۓ۔ چنانچہ فردوس اور نوید نے اپنے گھر کی طرف رخ کیا اور اس خوبصورت جنگل کے راستےاپنے گھر کی طرف چل دیے۔ اُدھر گھونسلے میں بچے کبوتر کے آنے کے منتظر تھے اور اس کی گرفتاری سے بالکل بے خبر تھے۔
کچھ ہی دیر میں نوید اپنے گھر پہنچ گیا اپنی اماں کو خوبصورت سا سفید کبوتر دکھایا اور فردوس نے سارا قصہ اپنی بیگم کو سنایا۔ فردوس کی بیگم کو کافی غصہ آیا اور ساتھ میں دکھ بھی ہوا لیکن وہ بھی اپنے بیٹے کی ضد کے سامنے مجبور تھی۔ فردوس نے بازار سے ایک پنجرہ خرید لیا اور اس کبوتر کو پنجرے میں قید کر لیا گیا کیونکہ نوید کو ڈر تھا کہ کہیں یہ کبوتر اڑ کے بھاگ نہ جائے اور نوید کسی بھی طرح کبوتر کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ قیدی کبوتر کو اپنے بچوں کی بڑی فکر تھی۔ اس کے بچے کس حال میں ہوں گے؟ یہ بات اس کو بڑا ستا رہی تھی۔ اپنا حال سناتا بھی کس کو؟ ایک بے زبان پر ندہ کیسے اپنا حال سنا سکتا تھا۔ وہ اندر سے رو رہا تھا لیکن اس کے احساسات ایک انسان کی سمجھ سے باہر تھے۔ بے زبان کبوتر اپنی رہائی کی دعا کر رہا تھا۔ وہ اس قید سے آزادی چاہتا تھا اور اپنے بچوں سے ملنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے ننھے بچے اسی گھونسلے میں چند اناج کے دانوں کے انتظار میں بھوک سے مر چکے تھے۔ انہوں نے کافی انتظار کیا تھا اور اسی انتظار میں ان کی سانسیں ختم ہو چکی تھیں اور وہ سب اپنی زندگی کی جنگ ہار چکے تھے۔ گھونسلے میں ان مردہ بچوں کو کو ے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔
نوید کو کبوتر سے بے حد پیار تھا۔ وہ بہت لاڈ پیار سے اس کا خیال رکھتا تھا۔ کبوتر کے لئے پانی، اناج وغیرہ کا خود اہتمام کرتا تھا پورا دن اس کی صحبت میں صرف کرتا ۔ نوید اپنی دوستی بھرپور نبھا رہا تھا لیکن اپنے دوست کی کیفیت سے نا واقف تھا۔ کس طرح نوید نے اس کا گھر اجاڑا تھا، یہ بات نوید کی سمجھ سے باہر تھی۔ فردوس بھی کبوتر کا اچھا خاصا خیال رکھ رہا تھا لیکن نوید کی اماں ان دونوں سے بیزار تھیں، وہ کبوتر کی آزادی چاہتی تھی اور باپ بیٹے سے اس بات کی ہمیشہ تلقین کر رہی تھی، ہر کوئی اس کی بات سننے کو راضی نہ تھا۔ پنجرے میں قید کبوتر اپنے بچوں کی جدائی میں دن بہ دن کمزور ہوتا جارہا تھا۔ کبوتر کو نوید کی دوستی بالکل پسند نہ تھی اور وہ اس قید سے آزادی چاہتا تھا جو کہ ایک ناممکن سی بات تھی کیونکہ نوید کبوتر کی آزادی کبھی نہیں چاہے گا۔ نوید کو کبوتر سے بے انتہا محبت ہو چکی تھی اور وہ اسی کمرے میں سوتا تھا جہاں کبوتر کا پنجرہ رکھا گیا تھا۔ سوتے وقت نوید ہمیشہ کبوتر کو پانی پلاتا تھا اور ساتھ میں اس کے کھانے کا سامان پنجرے میں رکھتا تھا۔ نویدب کبوتر کا خیال بہت اچھے سے رکھ تو رہا تھا لیکن اپنے دوست کی غمِ زندگی سے بالکل بے خبر تھا۔ وہ اپنی دوستی کا حق تو نبھا رہا تھا، لیکن کبوترکو نوید کی یہ دوستی منظور نہ تھی۔ کبوتر بھی نوید کی طرح آزاد زندگی جینا چاہتا تھا، اپنے بچوں سے ملنا چاہتا تھا جو کہ اب مر چکے تھے۔
ایک رات نوید نے روزانہ کی طرح سوتے وقت کبوتر کو پانی پلایا اور خود سو گیا۔ صبح جب نوید اٹھتا ہے تو پنجرے سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی اور نہ ہی کبوتر کوئی حرکت کر رہا تھا۔ نوید کو لگا کہ شاید کبوتر سو رہا ہے اور اس کو جگانے کے لیے نوید نے پنجرے کو ہلایا، کبوتر کو ہلایا، لیکن کبوتر ٹس سے مس نہ ہو رہا تھا۔ اپنی بچوں کی جدائی برداشت نہ کرنے کے باعث کبوتر کی سانسیں ختم ہو چکی تھی۔ اس جدائی نے کبوتر کی جان لی تھی۔ آخر ایک بےزبان پرندہ کتنا درد سہہ سکتا تھا۔ اس درد نے کبوتر کی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔ کبوتر مر چکا تھا۔ نوید نے زور زور سے رونا شروع کیا۔ اس کی ماں نے اسے سمجھانے کی لاکھ کوشش کی، پر نوید نہ مانا۔ نوید کا دوست مر چکا تھا۔ وہ دوست جسے نوید انتہائی محبت کرتا تھا، وہ دوست جس کے پاس نوید سوتا تھا، وہ دوست جو اس کی زندگی کا ایک ہمسفر تھا۔ اس دوست کی جدائی کا غم نوید نہ سہہ سکا۔ وہ بہت سوچنے لگا۔ کبوتر کے جانے سے نوید کی زندگی میں گویا ایک طوفان آیا تھا اور نوید کو لگ رہا تھا کہ اس نے زندگی میں سب کچھ کھو دیا ہے۔ اپنے دوست کے دور جانے سے نوید کے دماغ پر کافی گہرا اثر پڑا اور نوید ایک ذہنی بیماری کا شکار ہوا۔ نوید کی اس ذہنی بیماری کا علاج چل رہا ہے اور فردوس کو یقین ہے کہ اس کا بیٹا ایک دن ضرور صحت یاب ہوگا:
آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے!
میں بے زبان ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ
9971444589