بات 1970 کی ہے ایسا دور جہاں لوگ سیدھے سادے اور دل کے صاف ہوا کرتے تھے۔ نہ دل میں حسد تھا اور نہ ہی بغض۔ پیار محبت کی مثال ہر جگہ قائم تھی۔ نہ بجلی تھی، نہ ٹیلی ویژن، نہ موبائل فون اور لوگوں کی تفریح کا ذریعہ داستان گوئی، قصہ کہانیاں اور کتابوں کا مطالعہ تھا۔ شہر سرینگر سے دور جہلم کی آغوش میں بسا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ وہاں کے لوگوں کی ایک خاص بات داستان گوئی تھی، ہر ہفتہ داستان گوئی کی باضابطہ محفل منعقد ہوا کرتی تھی اور مافوق الفطر عناصر جیسے جن ، پری ، دیو، دیوتا وغیرہ لوگوں کے ذہن میں اس قدر پیوست ہوئے تھے گویا ان کو سچی دنیا کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔
افروزہ اسی گاؤں میں رہنے والی ایک غریب باپ کی بیٹی تھی۔ دسمبر کا مہینہ تھا اور افروزہ کو خیال آتا ہےکہ گھر کے کپڑوں کو دھونا ہے اور وہ یہ کپڑے لے کر دریائے جہلم کے کنارے پر چلی جاتی ہے اور کپڑے دھونے کا عمل شروع کرتی ہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد افروزہ کو لگتا ہےکہ پانی کے اندر سے کوئی ایک کشش اسے اپنی اور کھینچ رہی ہے اور پلک جھپک میں ہی افروزہ پانی کے اندر چلی جاتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ وہ کسی پری کی اسیر میں آ چکی ہے اور وہ اس قدر طاقتور تھی کہ افروزہ بے ہوش ہوجاتی ہے۔ ہوش میں آتی ہیں تو اپنے آپ کو نئی دنیا میں دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے۔ ایسی دنیا جو دریائے جہلم کے نیچے بسی تھی۔ ایک ایسی دنیا جو نہایت ہی حسین اور خوبصورت تھی وہاں کے مرد، عورت، بچے بہت ہی خوش نظر آ رہے تھے۔ یہ ملک آتش تھا۔ اس ملک کا حاکم دلدادہ اپنی ملکہ مخمور کے ہمراہ اپنے دربار میں افروزہ کے ہوش میں آنے کا منتظر تھا۔ دلدادہ کا ایک بیٹا بھی تھا جو شہزادہ رخسار کے نام سے جانا جاتا تھا۔ افروز نے بڑی بہادری کے ساتھ کام لیا۔ گھر سے بچھڑنے کا غم تو تھا ہی لیکن ساتھ میں ہی ایک نئی دنیا دیکھنے کی بے قراری بھی قائم تھی۔
بادشاہ دلدادہ کا دربار لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور سب افروزہ کا دیدار کرنے کے لئے بے قرار تھے۔ آپس میں بات ہو رہی تھی، ایسی باتیں جوافروذہ کی سمجھ سے بالکل باہر تھیں۔ دلدادہ کے دربار میں ایک جادوگرنی حیرت تھی۔ اس نے اپنے جادو کا کمال دکھا کر افروزہ پر ایسا جادو طاری کیا کہ وہ ملک آتش میں رہنے والے لوگوں کی زبان سمجھنے بھی لگی اور بولنے بھی لگی۔ افروزہ نے اپنے گھر اور ملک کشمیر کے حالات بیان کیے اور ساتھ ہی ملک آتش کے بارے میں جانکاری لینا شروع کی۔ ملک آتش دریائے جہلم کے نیچے بسا ایک ملک تھا جہاں جن، پریاں ،دیو ،دیوتا ،جادوگر اور جادوگرنیاں سب ایک ساتھ رہتے تھے او ان سب کا مالک و حاکم وہاں کا بادشاہ دلدادہ تھا۔
افروزہ بہت ہی خوبصورت اور بہادر تھی۔ افروزہ نے ملک آتش کا بڑی باریکی سے جائزہ لیا۔ نام سے تو ملک آتش تھا لیکن سال کے دس مہینے سردیوں کے تھے، ایسی سردیاں جو کشمیر کی وادیوں کی ٹھنڈک سے بھی زیادہ شدید تھیں۔ سردیوں سے بچنے کے لیے ان کے پاس کوئی کارآمد چیز نہیں تھی۔ افروزہ کے دماغ میں ٹک سے کانگڑی آتی ہے اور وہ سوچتی ہے کیوں نہ ان لوگوں کو بھی کانگڑی کے فن سے آگاہ کرایا جائے۔ چنانچہ افروز وقت کے حاکم دلدادہ سے یہ بات کہہ دیتی ہیں۔ دلدادہ جو اپنی قوم کا خیرخواہ تھا اس بات سے بے حد خوش ہو جاتا ہے اور اپنے شہزادے رخسار کو حکم دیتا ہے کہ اس کام میں وہ افروزہ کی مدد کرے۔ افروزہ اور رخسار کانگڑی بنانے کا کام شروع کرتے ہیں اور کچھ ہی مدت میں ایک خوبصورت کانگڑی تیار ہو جاتی ہے اور افروزہ اس کانگڑی کو بطور تحفہ دلدادہ کی خدمت میں پیش کرتی ہیں۔ شدید سردی میں آگ سے بھری کانگڑی کو دیکھ کر دلدداہ کی خوشی بیان لفظ نہیں ہے۔ وہ اس قدر خوش ہو جاتا ہے کہ افروزہ سے وعدہ کرتا ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری کی جائے گی بشرطیکہ پورے ملک کے لیے ایسی کانگڑیوں کا انتظام کیا جائے اور یہاں کے لوگوں کو بھی اس فن سے آگاہ کیا جائے۔ افروزہ اور شہزادہ رخسار ملک آتش کے کچھ لوگوں کے ہمراہ اس کام میں لگ جاتے ہیں۔
شہزاد رخسار افروزہ کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے اور یہ بات اپنے دل میں دبا کے رکھتا ہے اور صحیح وقت کے انتظار میں افروزہ کے ہمراہ کانگڑیاں بنانے میں اپنا وقت صرف کرتا ہے۔ چھ مہینوں میں دلدادہ کے حکم کی پیروی ہوتی ہے اور وقت آجاتا ہے جب ملک آتش کے ہر فرد کے پاس کانگڑی رہتی ہے اور اس شدید سردی کا مقابلہ اب ملک آتش کا بچہ بچہ کر سکتا ہے۔
شہزادہ رخسار اپنی ماں مخمور سے دل کی بات کہہ دیتا ہے کہ وہ کس قدر افروذہ کے عشق میں گرفتار ہو چکا ہے اور افروزہ کو اپنی شہزادی بنانا چاہتا ہے۔ مخمور یہ ساری باتیں دلداہ کو بتاتی ہیں اور دلدادہ کا دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ افروزہ کی حوصلہ افزائی کے لئے اسے دربار میں بلایا جاتا ہے اور طرح طرح کے قیمتی تحفوں سے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور بادشاہ دلدادہ کے دل میں خیال آتا ہے کہ کیوں نہ اس خوشی کے موقع پر افروز اور رخسار کی شادی کا اعلان بھی کیا جاۓ۔ لیکن افروزہ حاکم دلدادہ کو اپنا کیا ہوا وعدہ یاد دلاتی ہے۔۔” اس کی ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ”۔۔ بادشاہ کو بھی اپنا کیا ہوا وعدہ یاد آجاتا ہے اور افروزہ سے اپنی خواہش طلب کرتا ہے۔ افروزہ کچھ سوچ کے بعد کے بادشاہ دلدادہ سے گزارش کرتی ہے کہ اس کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ سے اپنے گھر واپس بھیج دیا جائے۔
یہ سن کر پورے دربار میں کچھ دیر کے لئے سناٹا چھا جاتا ہے۔ بادشاہ دلدادہ کی امتحان کی گھڑی آ چکی تھ۔ ایک جانب شہزادہ رخسار کا پیار اور دوسری جانب افروزہ کی گھر واپسی۔۔ رخسار کے پاؤں تلے سے زمین سرک جاتی ہے گویا اس کے سجائے ہوئے خواب مسمار ہو رہے تھے۔ دربار میں موجود لوگوں کی آنکھیں نم تھیں ۔افروز اس سے اس قدر محبت و شفقت ہو چکی تھی کہ اس کی جدائی کا غم ہر کسی کے چہرے پر صاف صاف عیاں تھا ٹھیک اسی طرح جس طرح افروزہ کے اندر اپنے گھر والوں سے بچھڑنے کا غم اس کے دل کے اندر دبا ہوا تھا۔ بادشاہ دلدادہ ایک خود دار حاکم تھا اور اپنا کیا ہوا وعدہ کسی بھی حالت میں نبھانا فرض سمجھتا تھا۔ جادوگرنی حیرت کو دربار میں بلایا جاتا ہے اور افروزہ کو صحیح سلامت اپنے گھر چھوڑنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ دربار کا ماحول پر نم تھا اور سب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ افروزہ بھی رو رہی تھی ملک آتش میں بِتایا ہوا ہر لمحہ افروزہ کو رونے پر مجبور کر رہا تھا۔ بادشاہ دلدادہ اپنے خزانوں میں سے بہت سارے ہیرے جواہرات افروزہ کی جھولی میں ڈال دیتا ہے اور حیرت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شہزادہ رخسار دربار چھوڑ کر بہت دور تنہائی میں اپنے عشق و محبت کی جدائی کا درد اپنے اندر لیے ہوئے اپنے دل کو جھوٹی تسلی دیتا رہا۔ جادوگرنی حیرت نے بادشاہ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے افروزہ کو دریائے جہلم کے کنارے چھوڑ کر اسے خیر آباد کہا۔
افروزہ کو دیکھ کر گاؤں والے حیران ہوگئے۔ وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ افروزہ جہلم کی آغوش میں اپنی جان دے چکی ہے۔ افروزہ کے زندہ ہونے کی خبر سن کر محمد ولی ( افروزہ کا والد) خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ محمد ولی ایک دیندار انسان تھا اور اپنے رب پر کافی بھروسہ کرتا تھا۔ اس حیرت انگیز خبر نے محمد ولی کا اللہ پر بھروسہ اور مضبوط کیا۔ کہتے ہیں جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے۔ افروزہ کی جدا ئی کا دور ختم ہو جاتا ہے اور اپنے گھر والوں سے ملتی ہے اور ملک آتش سے ملے ہیرے جواہرات بیچ کر وہ ایک نہایت عمدہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنے اللہ کے شکر گزار ہیں۔
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ کشمیر