تحریر:-ہلال بخاری
حضرت آدم کی کہانی کو جانتے ہو۔ اب ایک ابن آدم کی کہانی سنو۔ میں بھی اپنے جد امجد کی طرح بلندی سے پستی اور پستی سے بلندی کے سفر میں رواں دواں رہا ہوں ۔اگر چہ وہ عظیم ہیں اور میں ادنیٰ ہوں مگر میں نے بھی شاید اس دنیا پر حکومت کرنے کی لالچ میں سب کچھ کھودیا۔اب جب سب کچھ کھو کے بیٹھا ہوں اور کافی درد اور ذلت سے گزر چکا ہوں تو دل میں اب یہ عجیب سی کیفیت محسوس کرکے خود ہی حیران ہوں۔ جانتا نہیں کہ میں کس منزل میں ہوں، گناہ گار ہوں یا بے گناہ، معتبر ہوں یا مردود اور نہ یہ خبر ہے کہ میرا انجام کیا ہوگا، پکڑا جاوں گا یا بخشا جاوں گا۔
انجام بہرحال رب کریم ہی کو معلوم ہے۔ مگر جو گزر چکا اس وقت کے ہزاروں نشان میرے دل و دماغ پر سبط ہیں۔ بہت سارے میرے دل کی جلن کا باعث ہیں جبکہ کچھ راحت بھی دیتے ہیں۔ خیر جیسے بھی ہوں سب نشان اپنے ہیں اور میں انکو اولادوں کی طرح اب محسوس کرتا ہوں۔ کچھ اولاد اچھے ہوتے ہیں کچھ برے۔ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ سب ہی اچھے ہوں۔ مگر ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ شاید زندگی کا یہی دستور ہے کہ اس میں مختلف کردار مل کر رنگ بھردیں۔ جو اولاد اچھے نہیں بھی ہوتے ماں باپ چاہے انکو نفرت کی نگاہ سے ہی کیوں نہ دیکھے لیکن وہ انکو اپنی شخصیت سے کبھی الگ نہیں کرپاتے۔ نفرت کی نگاہ سے تو انسان کبھی خود کو بھی دیکھتا ہے لیکن کوئی خود سے چھٹکارا تھوڈے ہی پاسکتا ہے۔
تو یہ یادیں جیسی بھی ہوں میری ہیں اور ان سے میری گزشتہ زندگی کی دلکش تصویریں چپکی ہیں۔ انہیں دل سے کیسے جدا کیا جاسکتا ہے۔
میں نے جب ہوش سمبھالا تو اپنے ارد گرد ہر طرف درد و کرب کو محسوس کیا۔ ہر اور مظلوموں کو ظالموں سے شکست کھاتے پایا۔ پہلے زہن میں آیا کہ سب کچھ کو اندیکھا کرنے میں ہی میری بھلائی ہے۔ مگر بے چین دل نے راحت سے زندگی گزارنے کا موقعہ نہ دیا۔
کسی دانا کا کہنا ہے "فراغت کی زندگی پاک نہیں ہو سکتی” اور کہاوتیں اکثر سوچنے والے انسان کے دل کو بے چین کرتی ہیں اور کچھ کو تو اس قدر بے قرار کرتی ہیں کہ ان سے عمل کئے بغیر نہیں رہا جاتا۔
اس دنیا میں کم سوچنے والے بناتے ہیں ، سوچنے والے اس دنیا کو چلانے کا کام لینا چاہتے ہیں اور زیادہ سوچنے والے اسے بگاڈ کر نئے انداز سے بنانے کے خیالات میں رہتے ہیں۔ مجھے شاید درمیان والا حصہ ملا۔ میں نے سوچا کہ اوروں سے مل کر میں اپنے وطن عزیز میں انقلاب لا کر اسے بہتر بنا سکتا ہوں۔
یہ غلامی کے دور کی بات ہے۔ شاید آپ میں سے بہت سے لوگوں کے لئے اب یہ ہسٹری کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔ مگر میرے لئے یہ میری ذات کا حصہ ہے۔ میں نے اس دور کو جیا ہے جب غلامی ہمارے شانوں پے سوار ہوکے ہمیں اپنے پیروں پر استوار ہونے کا موقع دینا خلاف قانون سمجھتی تھی۔ اسی دور کا میں ایک حصہ ہوں اور اسی دور میں اپنے کمرے کا آرام اور اپنی کتابوں کی مہک کو چھوڑ کے میں باہر آیا اور غلامی کی آندھی کے خلاف رو بہ عمل ہوا۔ میرا خیال ہے کہ شاید سب یہ نہیں کر پاتے۔ رب نے شاید مجھے ہی اس لئے چنا تھا۔ آپکو شاید اس میں میرا ذاتی غرض بھی دکھائی دے ۔ میں آج آپکے خیال کی تردید کے لئے یہ کہانی نہیں سنا رہا ہوں نہ میں اپنا دفاع کرنا چاہتا ہوں میں سچ کہنا چاہتا ہوں وہ بھی جو میرے ہی خلاف ہو ۔ پھر فیصلہ آپ پر ہوگا۔
میرے ساتھیوں نے میرا خوب ساتھ دیا اور مجھے آگے سے لیڑ کرنے کا مشورہ دیا۔ مجھ میں جوش اور ولولہ پہلے ہی سے تھا اور لیڑر بن کر اس میں نکھار پیدا ہوا۔لیڑ کون نہیں کرنا چاہتا؟ یہ تو ایک اعزاز ہے گناہ نہیں۔
مگر اکیلا لیڑر کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے لاکھوں حامی نہ ہوں تو وہ اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔
میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر وقت کے جابر حکمرانوں کے خلاف لڑ کر ایک دن عام لوگوں کو یہ حق دیا کہ وہ اس زمین کو فخر سے اپنی جاگیر کہہ سکیں جس پر صدیوں سے وہ اور انکے باپ دادا محنت کرتے آئے تھے۔ زمین پر صرف امیرں اور جاگیرداروں کا حق نہیں۔ یہ اللہ کی ہے اور ہر اس انسان کے پاس ایک امانت کی طرح ہے جو اس پر اپنا پسینہ بہاتا ہے۔ جب مفلسوں کو سہارا ملا تو وہ میرے اور میرے ساتھیوں کے گن گانے لگے۔ میں بہت خوش تھا کہ میری وجہ سے عام لوگوں کو اس قدر مسرت کا احساس ہوا۔کیونکہ میں شاید جمہور کی خوشی میں اپنی خوشی محسوس کرنے لگا تھا۔ آپ میں سے شاید بہت سے لوگوں کو یہ گلا ہو لیکن یہ سچ ہے میں بہت سے مغربی افکار سے بہت حد تک متاثر ہوا تھا۔لیکن یہ ایسا کوئی گناہ نہ تھا ،ہمارے بہت سے لوگ جن میں کچھ کو آپ علامہ بھی پکارتے ہیں ان ہی خیالات سے متاثر تھے۔جمہوریت سے مجھے خاص لگاؤ ہوا ۔میں چاہتا تھا کہ میرے لوگ اور میرا ملک ان تمام قسم کی نفرتوں سے پاک رہے جو مزہبی, نسلی ،ذاتی یا اور طرح کی انتہا پسندی سے جنم لیتی ہیں۔اس لئے میں نے اپنے ان دوستوں کا ساتھ دیا جو جمہوریت اور سماجی انصاف میں یقین رکھتے تھے۔مجھے لگا کہ ہمارا مستقبل جمہوریت اور سماجی انصاف کے ساتھ زیادہ محفوظ ہوگا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میں نے یہ سب اپنی غرض اور انا کے لئے کیا۔ میرا دل کہتا ہے کہ میں سہی تھا مگر آپ لوگوں کو کچھ بھی سوچنے سے نہیں روک سکتے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود سے زیادہ کبھی دوسرے لوگ ہی ہماری نیت سے آگاہ ہوتے ہیں۔
آج شاید میں اپنی غلطیوں سے زیادہ آگاہ ہوں۔میں شاید اس وقت غلط نہ تھا جب میں نے جمہوریت کا ساتھ دیا تھا نہ اس وقت جب میں نے مزہبی سیاست کو ٹھکرایا تھا۔سب سے بڑی غلطیاں تو مجھ سے اس وقت سرزد ہوئیں جب میں نے اوروں کی طرح مزہب کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے جزبات سے کھیل کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی۔ اگر چہ میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ عوام کے لیے ہی کیا تھا مگر لوگوں کو بے وقوف بنانا کسی بھی طرح سے بجا نہیں اور اس کا کوئی جواز نہیں۔جب سادہ لوح لوگوں نے مجھے ولی خدا سمجھ لیا تھا تو مجھے ان سے صاف کہہ دینا چاہیے تھا کہ میری طاقت الہی نہیں بلکہ جمہوری ہے۔اس وقت اکثریت میری ہر عمل کو دل و جان سے قبول کرتی تھی اور یہی میری اصلی طاقت کا راز تھا۔
میری ایک اور اہم خطا یہ تھی کہ میں اپنے دوستوں کے انتخاب میں ایک ناکام اور نامراد آدمی ثابت ہوا۔ جن کو میں نے دوست تصور کیا انہوں نے ہی میری پیٹھ میں خنجر گھونپا۔ جن کو میں نے خود مختاری اور آزادی کے ستون سمجھا انہوں نے ہی قید کرکے مجھے اپنی بے وقوفی اور کم عقلی سے آشنا کیا۔جن لوگوں کے ساتھ ملکر میں نے جمہوریت اور سماجی انصاف کے خواب دیکھے تھے انہوں نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ جو کسی تانا شاہ نے بھی کسی اپنے کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔
ان کی خصلت دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہوا کہ دنیا کے ہمارے اس حصے میں جمہوریت اور سماجی انصاف محظ دکھاوے کے لئے ہیں۔اصل میں ہمارے لوگوں کو آج بھی طاقت اور خوف کے بلبوتے پر ہی محکوم بنایا جارہا ہے۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ مجھ سے بے شک گناہ بھی سرزد ہوے ہیں مگر ابن آدم ہوں اور شاید خطا میری فطرت کے ساتھ ہی جڑی ہے۔ آپ جو میری ہی طرح انسان، ابن آدم اور بنت ہوا ہو، مجھ کو اللہ کے فیصلے پر چھوڑ دو۔ وہ رحمان و رحیم ہے شاید مجھ کو بھی بخش دے۔ آپ میرے حسد میں اپنا دل جلا کر خود کو تکلیف کیوں دو گے؟