از قلم عاقب شاھین ۔
ہر سال کے آٹھ مارچ کا دن خواتین کے لیے ان کی اہمیت و افادیت اور معاشرے میں مقام کی وجہ سے مختص کیا گیا ہے۔ اس دن خواتین کے ہاتھوں حاصل ہونے والی سیاسی، سماجی اور معاشی کامیابیوں کا جشن منایا جاتا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کی جڑیں 1908ءسے جڑی ہیں جب 15,000 سے زیادہ امریکی خواتین احتجاج کے لیے نیویارک کی سڑکوں پر نکل آئیں۔ کام کے اوقات میں کمی کا مطالبہ کرنے، اور انہیں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کے لیے، اور ان مظاہروں کے نتیجے میں، امریکن سوشلسٹ پارٹی نے 1909 میں، یعنی اگلے سال خواتین کا پہلا قومی دن منانے کا فیصلہ کیا۔
(کارلا زیٹکن) نامی ایک خاتون نے تجویز پیش کی کہ یہ دن صرف قومی نہیں بلکہ عالمی ہونا چاہیے اور اگلے سال 1910 میں اس نے کوپن ہیگن میں منعقدہ ورکنگ ویمن کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی جس میں دنیا کے 17 ممالک سے 100 خواتین نے شرکت فرمائی ۔1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی نے تاریخ میں پہلی بار خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا۔
1975 میں اقوام متحدہ نے اس دن کو منانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہر سال اس کے لیے ایک مختلف تھیم کا انتخاب کیا اور 1976 میں پہلا تھیم "ماضی کو منانا اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی” تھا۔
دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اور جیسا کہ خواتین اور انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں، میڈیا اور دیگر اداروں کا رواج ہے، ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں منایا، جب کہ کچھ ممالک میں خواتین کے حقوق کے لیے خواتین کے مظاہرے ہوئے، جس کے دوران خواتین نے بہت سے مطالبات کیے۔ جن میں شاید سب سے نمایاں خواتین کے اسقاط حمل اور اس کے جنین کو قتل کرنے کے حق کا مطالبہ، نیز ہر چیز میں مردوں کے ساتھ برابری کا دعویٰ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم اسلام میں خواتین کے حقوق پر بات کرنا چاہتے ہیں اور ان حقوق کو ناپنا چاہتے ہیں اور انہیں آج کے مسلمانوں کی حقیقت سے الگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم نے اسلام اور روادار شریعت پر ظلم کیا ہوگا۔ آج کے مسلمانوں کے بہت سے اعمال، یہاں تک کہ ان میں سے کچھ مذہبی بھی ہے ان کا خواتین کے بارے میں اسلام یا نازل کردہ شرعی احکام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ بعض اوقات غلط رسم و رواج اور روایات ہیں جو شریعت سے متصادم ہوتے ہیں اور بعض اوقات برے اخلاق، صرف اس کے مالک کی نمائندگی کرتے ہیں۔
جہاں تک اسلامی مذہب اور شریعت کی دفعات کا تعلق ہے تو یہ وہ عظیم ترین قوانین ہیں جو پوری تاریخ میں خواتین کے لیے منصفانہ رہے ہیں، اور قرآن و سنت نے خواتین کو ایسے وقت میں بچایا ہے جب خواتین نے اس میں زندگی کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن مروجہ تہذیبوں میں اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ وہ انسان ہیں یا آسیب، یا وہ زندگی کے بالکل حقدار ہیں؟ جہاں تک اس کے حقوق اور جائیداد کا تعلق ہے تو اسے کسی چیز پر تصرف کا حق حاصل نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی چیز کی مالک تھی لیکن اس کی حالت جائیداد کی طرح وراثت میں ملی تھی۔
دور جاہلیت میں عورت کو ذلیل اور بے قدر کیا جاتا تھا کیونکہ مرد وہ آقا تھا جس نے عورت کو عزت و توقیر کے بغیر اپنی خواہش کے مطابق قابو میں رکھا تھا لیکن اسلام آنے کے بعد اسے بلند رتبہ ملا اور لوگ اس کی قدر کرنے لگے اور اسے گھر میں سب سے زیادہ عزت ملی ۔ کیونکہ عورت ایک نرم، حساس مخلوق ہے، اور خدا کی طرف سے پیدا کردہ مخصوص صلاحیتیں رکھتی ہیں، کچھ کاموں کو انجام دینے کے لئے ایک خاص طریقے سے آئیں جو آپ برداشت کر سکتے ہیں، اور یہ ایک عورت ہوسکتی ہے؛ ایک ماں، بیوی، بہن، یا بیٹی، اور اس کے تمام حالات میں اس کی عزت اور احترام کیا جانا چاہیے،
ہم اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسلامی قانون سازی سے پہلے عورتوں کی عزت پامال تھی۔ اور خرید و فروخت کی شے تھیں اور جب اسلام آیا تو اس نے انہیں عزت بخشی گویا اس مشکل دلدل سے نجات دلائی جس سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔ عورت کو ماں، بہن، بیوی ، بیٹی کے نام سے معاشرے میں متعارف کروایا اور ان کو معاشرے میں ایک ایسا عظیم کردار عطا کیا جس سے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
آج کے دور میں عورتوں نے اپنی عزت اپنا مقام خود کھودیا عورتوں خود اپنی عزت و تکریم کی چادر اتار پھینکی یہی وجہ ہے کہ عورتیں ہر جگہ ظلم و زیادتی کا شکار ہورہی ہیں ۔کب کہ قرآن نے عورت کو اتنا مقدس بنایا کہ مردوں کو حکم دیا ہے رب العالمین نے ۔۔۔
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ
کہہ دیجیے مومنوں کو اپنی نظریں نیچے رکھا کریں ۔
جس عورت کو دیکھ کر ہمیں نظریں نیچی کرنے کا حکم ملا آج وہی عورت جدیدیت (modernity) ترقی کے نام برہ نظروں اور ہوس کا نشانہ بن گئیں ہیں ۔ان کے حقوق پامال کیے گئے انہیں بازاروں کی زینت بنائی گئی۔
اگر آج بھی ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آئیے اسلام کی طرف دیکھیں آپ کے حقوق کیا ہے آپ کی پہچان کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھا ہے ،ارشادِ ربانی ہے ۔
يآ اَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُم الَّذِی خَلَقَكُم مِّن نَفسِ وَّاحِدَةِ وَّخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَ بَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً كَثِیرًا .
(النساء)
الے لوگو!اپنے رب سے ڈرو ،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس جوڑ پیدا فرمایا ۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق ) کو پھیلا دیا ۔
اسلام عورتوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے آیا اور عورتوں کو مالی طور پر خود مختار ہونے کا حق دیا۔ انہیں تجارت کرنے اور کمانے کی اجازت دی، مرد کو اسلام نے آگاہ کیا کہ مرد عورت کی رضامندی کے بغیر ان کے مال مال کو۔خرچ نہیں کرسکتا ۔ وہ شادی پر مہر اور وراثت میں اپنے حصے کے حقدار ہیں یہ سارا حق اللہ اور کائنات کے رہبر کامل محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دیا۔
بلا جھجک ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے زیادہ عورتوں کو عزت اور وقار دینے والا کوئی نہیں عورتوں کو زلت وا رسوائی سے نجات دلائی اور عزت کا تاج پہنایا ۔ مردوں کو آگاہ کیا گیا کہ عورتوں سے مشاورت کیا کرو ان سے رائے مانگا کرو خود رسول اللہﷺ نے ام سلمہ رض کو صلح حدیبیہ کے موقع پر ان سے رائے طلب کی ۔
اسلام نے عورت کو اتنا بلند وبالا کیا اور اتنی عزت دی کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ ،عورت کیلئے یہ بہت ہی مبارک ہے کہ اسکی پہلی اولاد لڑکی ہو ،جس شخص کی بیٹیاں ہوں اسکو بُرا مت سمجھو اسلیۓ کہ میں بیٹی کا باپ ہوں اور جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لڑکی ! تو زمین میں اُتر ،میں تیرے باپ کی مدد کرونگا۔
اتنی عزت اسلام نے عورت کو دیا لہذا ہر ایک عورت کو اس ضمن میں غور کرنا چاہے کہ اسکی کتنی قیمت ہے وہ ہیرا ہے لیکن تب جب کو خود کے وقار کو سمجھے ۔
بقول سرفراز بزمی ۔
ہے موت زمانے کے لئے مرگ امومت
اس راز سے واقف نہیں افرنگ کا صیاد
آزادئ نسواں ہے کہ محرومئ نسواں
عورت ہو اگر لذت تخلیق سے آزاد
کیوں بھول گیا خلد نکالا ہوا آدم
” آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
از قلم عاقب شاھین ۔
ہر سال کے آٹھویں مارچ کو خواتین کے لیے ان کی اہمیت و افادیت اور معاشرے میں مقام کی وجہ سے مختص کیا گیا ہے۔ اس دن خواتین کے ہاتھوں حاصل ہونے والی سیاسی، سماجی اور معاشی کامیابیوں کا جشن منایا جاتا ہے۔
خواتین کے عالمی دن کی جڑیں 1908ءسے جڑی ہیں جب 15,000 سے زیادہ امریکی خواتین احتجاج کے لیے نیویارک کی سڑکوں پر نکل آئیں۔ کام کے اوقات میں کمی کا مطالبہ کرنے، اور انہیں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کے لیے، اور ان مظاہروں کے نتیجے میں، امریکن سوشلسٹ پارٹی نے 1909 میں، یعنی اگلے سال خواتین کا پہلا قومی دن منانے کا فیصلہ کیا۔
(کارلا زیٹکن) نامی ایک خاتون نے تجویز پیش کی کہ یہ دن صرف قومی نہیں بلکہ عالمی نا چاہیے اور اگلے سال 1910 میں اس نے کوپن ہیگن میں منعقدہ ورکنگ ویمن کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی جس میں دنیا کے 17 ممالک سے 100 خواتین نے شرکت فرمائی ۔1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی نے تاریخ میں پہلی بار خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا۔
1975 میں اقوام متحدہ نے اس دن کو منانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہر سال اس کے لیے ایک مختلف تھیم کا انتخاب کیا اور 1976 میں پہلا تھیم "ماضی کو منانا اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی” تھا۔
دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اور جیسا کہ خواتین اور انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں، میڈیا اور دیگر اداروں کا رواج ہے، ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں منایا، جب کہ کچھ ممالک میں خواتین کے حقوق کے لیے خواتین کے مظاہرے ہوئے، جس کے دوران خواتین نے بہت سے مطالبات کیے۔ جن میں شاید سب سے نمایاں خواتین کے اسقاط حمل اور اس کے جنین کو قتل کرنے کے حق کا مطالبہ، نیز ہر چیز میں مردوں کے ساتھ برابری کا دعویٰ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم اسلام میں خواتین کے حقوق پر بات کرنا چاہتے ہیں اور ان حقوق کو ناپنا چاہتے ہیں اور انہیں آج کے مسلمانوں کی حقیقت سے الگ کرنا چاہتے ہیں تو ہم نے اسلام اور روادار شریعت پر ظلم کیا ہوگا۔ آج کے مسلمانوں کے بہت سے اعمال، یہاں تک کہ ان میں سے کچھ مذہبی بھی ہے ان کا خواتین کے بارے میں اسلام یا نازل کردہ شرعی احکام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ بعض اوقات غلط رسم و رواج اور روایات ہیں جو شریعت سے متصادم ہوتے ہیں اور بعض اوقات برے اخلاق، صرف اس کے مالک کی نمائندگی کرتے ہیں۔
جہاں تک اسلامی مذہب اور شریعت کی دفعات کا تعلق ہے تو یہ وہ عظیم ترین قوانین ہیں جو پوری تاریخ میں خواتین کے لیے منصفانہ رہے ہیں، اور قرآن و سنت نے خواتین کو ایسے وقت میں بچایا ہے جب خواتین نے اس میں زندگی کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن مروجہ تہذیبوں میں اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ وہ انسان ہیں یا آسیب، یا وہ زندگی کے بالکل حقدار ہیں؟ جہاں تک اس کے حقوق اور جائیداد کا تعلق ہے تو اسے کسی چیز پر تصرف کا حق حاصل نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی چیز کی مالک تھی لیکن اس کی حالت جائیداد کی طرح وراثت میں ملی تھی۔
دور جاہلیت میں عورت کو ذلیل اور بے قدر کیا جاتا تھا کیونکہ مرد وہ آقا تھا جس نے عورت کو عزت و توقیر کے بغیر اپنی خواہش کے مطابق قابو میں رکھا تھا لیکن اسلام آنے کے بعد اسے بلند رتبہ ملا اور لوگ اس کی قدر کرنے لگے اور اسے گھر میں سب سے زیادہ عزت ملی ۔ کیونکہ عورت ایک نرم، حساس مخلوق ہے، اور خدا کی طرف سے پیدا کردہ مخصوص صلاحیتیں رکھتی ہیں، کچھ کاموں کو انجام دینے کے لئے ایک خاص طریقے سے آئیں جو آپ برداشت کر سکتے ہیں، اور یہ ایک عورت ہوسکتی ہے؛ ایک ماں، بیوی، بہن، یا بیٹی، اور اس کے تمام حالات میں اس کی عزت اور احترام کیا جانا چاہیے،
ہم اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اسلامی قانون سازی سے پہلے عورتیں عزت کا ضیاع تھیں اور خرید و فروخت کی شے تھیں اور جب اسلام آیا تو اس نے انہیں عزت بخشی گویا اس مشکل دلدل سے نجات دلائی جس سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔ عورت کو ماں، بہن، بیوی ، بیٹی کے نام سے معاشرے میں متعارف کروایا اور ان کو معاشرے میں ایک ایسا عظیم کردار عطا کیا جس سے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
آج کے دور میں عورتوں نے اپنی عزت اپنا مقام خود کھودیا عورتوں خود اپنی جسم سے شرافت کی چادر اتاری یہی وجہ ہے کہ عورتیں ہر جگہ ظلم و زیادتی کا شکار ہورہی ہیں ۔کب کہ قرآن نے عورت کو اتنا مقدس بنایا کہ مردو کو حکم دیا ہے رب العالمین نے ۔۔۔
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ
کہہ دیجیے مومنوں کو اپنی نظریں نیچے رکھا کریں ۔
جس عورت کو دیکھ کر ہمیں نظریں نیچی کرنے کا حکم ملا آج وہی عورت جدیدیت (modernity) ترقی کے نام برہ نظروں اور حوس کا نشانہ بن گئیں ہیں ۔ان کے حقوق پامال کیے گئے انہیں بازاروں کی زینت بنائی گئی۔
اگر آج بھی ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں اپنی کھوئی ہوئی عزت واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آئیے اسلام کی طرف دیکھیں آپ کے حقوق کیا ہے آپ کی پہچان کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھا ہے ،ارشادِ ربانی ہے ۔
يآ اَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُم الَّذِی خَلَقَكُم مِّن نَفسِ وَّاحِدَةِ وَّخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَ بَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً كَثِیرًا .
(النساء)
الے لوگو!اپنے رب سے ڈرو ،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا پھر اسی سے اس جوڑ پیدا فرمایا ۔ پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق ) کو پھیلا دیا ۔
اسلام عورتوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے آیا اور عورتوں کو مالی طور پر خود مختار ہونے کا حق دیا۔ انہیں تجارت کرنے اور کمانے کی اجازت دی، مرد کو اسلام نے آگاہ کیا کہ مرد عورت کی رضامندی کے بغیر ان کے مال مال کو۔خرچ نہیں کرسکتا ۔ وہ شادی پر مہر اور وراثت میں اپنے حصے کے حقدار ہیں یہ سارا حق اللہ اور کائینات کے رہبر کامل محمد عربی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دیا۔
بلا جھجک ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے زیادہ عورتوں کو عزت اور وقار دینے والا کوئی نہیں عورتوں کو زلت وا رسوائی سے نجات دلائی اور عزت کا تاج پہنایا ۔ مردوں کو آگاہ کیا گیا کہ عورتوں سے مشاورت کیا کرو ان سے رائے مانگا کرو خود رسول اللہﷺ نے ام سلمہ رض کو صلح حدیبیہ کے موقع پر ان سے رائے طلب کی ۔
اسلام نے عورت کو اتنا بلند وبالا کیا اور اتنی عزت دی کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ ،عورت کیلئے یہ بہت ہی مبارک ہے کہ اسکی پہلی اولاد لڑکی ہو ،جس شخص کی بیٹیاں ہوں اسکو بُرا مت سمجھو اسلی کہ میں بیٹی کا باپ ہوں اور جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لڑکی ! تو زمین میں اُتر ،میں تیرے باپ کی مدد کرونگا۔
اتنی عزت اسلام نے عورت کو دیا لہذا ہر ایک عورت کو اس ضمن میں غور کرنا چاہے کہ اسکی کتنی قیمت ہے وہ ہیرا ہے لیکن تب جب کو خود کے وقار کو سمجھے ۔
بقول سرفراز بزمی ۔
ہے موت زمانے کے لئے مرگ امومت
اس راز سے واقف نہیں افرنگ کا صیاد
آزادئ نسواں ہے کہ محرومئ نسواں
عورت ہو اگر لذت تخلیق سے آزاد
کیوں بھول گیا خلد نکالا ہوا آدم
” آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد”