سلمی راضی(پونچھ، جموں)
ہمارے وطن عزیز ہندوستان کی قریب نصف آبادی کے حقوق کی آوازیں آسمان کی بلندیوں کو چھورہی ہیں۔ لیکن یہ آوازیں یہ عہدوپیمان حقیقت سے کوسوں دور نظر آرہے ہیں۔ بلکہ خواتین کے ساتھ انصاف اور حقوق کے نام پر اسحصال عام ہوچکاہے۔ اب دفتروں میں خواتین دھکے کھارہی ہیں۔ بنکوں کے اندر اور سامنے لائینیں خواتین کی نظر آرہی ہیں۔انٹر نٹ کی خستہ حالی کی وجہ سے معصوم بچوں کو لئے خواتین اور بزرگ نڈھال ہوکر گر جاتے ہیں۔بچے بلکتے رہتے ہیں اور یہ خواتین رات کو بھوکی پیاسیں تھکی ہاری گھر پہونچتی ہیں۔ تب تک رات کا بھی کچھ حصہ گزر چکا ہوتاہے۔اگلے دن پھر بنک میں یاکسی اور دفتر میں جانامجبوری بن چکاہے۔فوٹوسٹیٹ مراکز،کے سامنے خواتین بے یارومددگار نڈھال تڑپ رہی ہیں۔ سروں سے دوپٹے اتر جاتے ہیں۔بچوں کی چینخیں نکل جاتی ہیں۔اب تو ستم یہاں تک پہونچ چکاکہ عمر رسیدہ خواتین بزرگ،بیوائیں،بھی بازاروں،سڑکوں،چوراہوں،بس اڈوں،بنکوں دفاتر،انٹرنیٹ اور فوٹو سٹیٹ مراکز،غرض ہر جگہ پریشان و پشیمان ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایسا ماحول بنادیاگیا ہے کہ کوئی بھی نہ رہے چین سے گھروں میں بلکہ سب ہی دربدر ہوکر مصروف رہیں۔ سفورہ بیگم جن کی عمر 67سال ہے،انہوں نے بنک کے اندر ہی روتے ہوے کہاکہ بیٹا بیواؤں،بزرگوں،معذوروں کو دی جانے والی پنشن بھی فوٹوسٹیٹ کا خرچہ پورانہیں کرپاتی ہے۔ اسی لئے اب لوگ کہتے ہیں یہ پنشن بھی بند کردیجئے۔اب ہمارے پاس سکت باقی نہیں رہی۔
یہ حالت اگر چہ ملک کے دیگر ریاستوں میں نہ ہو لیکن جموں وکشمیر کے چپہ چپہ میں اہل فوٹوسٹیٹ کی دکان چلانے والے امبانی اور اڈانی بننے کی خواب میں مصروف عمل ہیں۔ دونوں ہاتھ سے غریب عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ افسر شاہی سرچڑھ کے بول رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاقانونیت عروج پر ہے اور قانون بھی صرف لاچار و بے یارومددگار کے لئے ہیں۔ اثررسوخ والے افراد لاقانونیت کا منبہ ہیں۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتاہے۔ ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی نہائیت پسماندہ دوردراز پہاڑی اور دیہی علاقوں پر محیط ہے۔ جہاں آج تک سڑک اور گاڑیوں کی امدورفت کا سلسلہ تک میسر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر دسیوں مصائیب نے خواتین وبزگوں،بیماروں کا پچھلے چارسالوں سے متواتر بیواؤں،بزرگ خواتین، نوعمر لڑکیاں پیدل ہر روز دشوار گزار دسیوں میل سفر کرکے تحصیل ہیڈ کوارٹر پر پہونچتی ہیں۔ جہاں سے بھوکی پیاسی بارش برف کورایا دھوپ کی صحبتوں کو برداشت کرتے ہوے کئیں کئیں دن خالی گھر لوٹناپڑتا ہے۔رضیہ بانو جن کی عمر 26 سال ہے، جو بچہ گود میں اٹھاے ہوے کبھی باہر کبھی اندر خدمت سنٹر کے پاس جاتی ہیں۔خدمت سنٹر والے فنگر پرنٹ لگاکر بینک بھیج دیتے ہیں۔ تین دن برابر چلنے کے باوجود کوئی حل نہیں نکلتا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے جب بینک منیجر سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہاں تعینات محافظ نے بلکل ہی منع کردیاکہ وہ فون پر مصروف ہیں،کام کررہے ہیں۔ بارہااسرار کے بعد اس محافظ نے خود بتایاکہ ابھی وقت نہیں ہے۔ آپ کو بعد میں آناہوگا۔ رفقہ بیگم جو قریب 60سال کی ہیں۔ بڑے پریشان حال ہوکر ایک الگ جگہ بیٹھ کر آہیں بھر رہی ہیں۔ پوچھنے پر بتایاکہ پورا سال ہوگیاہے۔ کاغذ دیتے دیتے مگر ابھی تک میراکام نہیں ہورہاہے۔فارم بھر کر جب پیسے نکالنے پہنچتی ہوں تو وہاں سے واپس کر دیا جاتا ہے۔ دوسری نہ ہی کوئی بات کی جاتی ہے۔نہ ہی سنی جاتی ہے۔
نظیرہ بی جن کی عمر 85سال ہے،ان کا کہناتھاکہ ہر ماہ پنشن کا ایک ہزار روپیہ ہمیں ملتاہے۔لیکن اس ایک ہزار کو لینے کے لئے ہفتہ بھر لگ جاتاہے۔ کبھی کہتے ہیں آدھار کارڈ لنک نہیں ہے،کبھی کہتے ہیں فنگر کرواکر اکاؤنٹ کھلے گا۔غرض پچھلے دو سال سے سینکڑوں بار آدھار کارڈ لنک کروانے کے لئے کاغذات دیے گئے ہیں۔ ہر بار نئے کاغذ مانگے جاتے ہیں۔پنشن سے زیادہ خرچہ ہوجاتاہے۔ ایک ہزار وصول کرنے کے لئے چار پانچ ہزار خرچ کرناپڑتاہے۔ یہ سب کچھ ایک دو کے ساتھ نہیں بلکہ ہر غریب عوام کے ساتھ یہ ظلم وزیادتی پچھلے دوسالوں سے لگاتار جاری ہے۔ اپنے پیسے لینے دینے کے باوجود بھی ان غریب معذوروں، بزرگ خواتین بیواؤں، کو ہر روز دھکے کھانے پڑتے ہیں۔امیروں اور جان پہچان والے تو فون پر یا پر خود ہء جاکر اپناکام کروالیتے ہیں۔لیکن یہ انجان کہاجائیں گے؟ کیا یہی ہے اچھے دن؟ جن کا وزیر اعظم نے وعدہ کیاتھا؟ اس حوالے سے سرپنچ اسلم ملک وسماجی کارکن تنویر احمد تانترے اور فرید احمد چھیلا کہتے ہیں کہ جموں وکشمیر بنک کے منڈی برانچ میں قریب ایک لاکھ اکاؤنٹ ہیں۔اس کے علاوہ متعدد تجارتی کاروباری اداروں کے اکاؤنٹ بھی ہیں۔ ہر ایک محکمہ اسی بنک سے منسلک ہے۔ جبکہ یہاں چھ یاسات ملازم ہی کام کرتے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔ یہاں ایک بنک برانچ بہت ہی کم ہے۔ اگر یہاں عوام اور بلخصوص ان خواتین کو راحت دینی ہے تو یہاں جموں وکشمیر بنک کی ایک اور برانچ کھولناوقت کی اشد ضرورت ہے۔ اور دیگر دو اے ٹی ایم لگانابھی اہم ضرورت ہیں۔
سوال یہ کہ اب اس کا جواب کون دیگا؟ بنک مینیجر کسی بھی سوال کا جواب دینے سے قبل اپنے اعلی افیسران کی طرف رخ موڑ دیتا ہے ۔ اس غریب عوام کا کون پرسان حال بنے گا؟ کیا یہی ہے خواتین کے وہ اچھے دن؟ جن کا ان سے وعدہ کیاگیاتھا۔انصاف کا تقاضا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ جب آپ اپنے گھر کی مستورات کو یوں بے ابرو ہوتانہیں دیکھ سکتے۔ کسی کی جھڑک سننانہیں برداشت کرتے تو یہ غریب خاتون بزرگ مائیں بہینیں بھی تو آخر عورت ہی ہیں۔بہتر ہوگا کہ بینک کے افسران اس جانب غور کریں اور ان کی مشکلوں کو دور کرنے کی بہتر سے بہتر حکمت عملی بنایں تاکہ لوگوں کا سسٹم پر اعتماد اور بھی مضبوط ہو۔کیونکہ اپنی ہی رقم لینے کے واسطے عزتوں کا سودا بہت برا لگتا ہے۔
۔(چرخہ فیچرس)