ریحانہ کوثر ریشیؔ
منڈی، پونچھ
اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ پانی زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ جہاں پانی ہے وہاں زندگی ہے، اور جہاں پانی نہیں وہاں زندگی بھی ممکن نہیں۔الغرض ہر جاندار، انسان، جانور، کیڑے، گھاس، پیڑ پودے سب کا دارو مدار پانی پر ہی ہے۔پانی کی اہمیت اور افادیت اس بات سے بھی واضح ہو جاتی ہے کہ خالق کائنات نے روئے زمیں پر 71فیصد پانی پیدا کیا ہے، لیکن با وجود اس کے پوری دنیا میں پانی کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ہر جگہ پانی کو لیکر ہاہا کار مچی ہو ئی ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ پانی کی طلب بڑھتی ہی جا رہی ہے۔لیکن یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ پانی کا بحران خواتین کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ جب پینے کا پانی آسانی سے میسر نہ ہو تو یہ ذمہ داری عام طور پر خواتین پر پڑتی ہے کہ وہ اپنے گھر کے لئے طویل فاصلے طے کر کے پانی بھر کر لائیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں، کچی آبادیوں، اور پسماندہ بستیوں میں، خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو اکثر رفع حاجت کے لئے اندھیرا ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جو انہیں بد سلوکی اور جنسی حملوں کا شکار بنا سکتا ہے۔ جب دور دراز علاقوں سے پانی لانا پڑتا ہے تو کئی خواتین کا کہنا ہے کہ اس سے انکا معاش متاثر ہوتا ہے۔ خاص طور سے نو جوان لڑکیاں اس سے متاثر ہوتی ہیں۔کیوں کے پانی بھرنے کی ذمہ داری انکی ہی ہوتی ہے۔ اسی حوالے سے میں قارئین کی ملاقات چنا بی،آسیہ کوثر، سونیہ اختر،ربیہ کوثر اور شائستہ کوثرجیسی کچھ خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے کراتی ہوں جنہوں نے مجھے پانی کے متعلق اپنی پریشانیوں سے آگاہ کیا ہے۔
چنا بی جو دڑھا فتح پور کی رہنے والی ہیں،ان کی عمر ساٹھ سال ہے۔انہوں نے بتایا کہ مجھے اس عمر میں بھی پانی بہت دور سے ڈھو کر لانا پڑتا ہے۔ پانی لانے کے لئے میلوں دور جانا پڑتا ہے۔ میں اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہوں میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔ بہت مشکل سے زندگی کا گزر بسر کرتی ہوں۔ مجھے پانی کے بغیر کھانا بنانے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔جب پانی بھرنے جاتی ہوں تو وہاں بھی لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ گھر میں بھی کوئی لفٹ اسکیم کا نل نہیں لگا ہوا کہ وہاں سے پانی بھر کے استعمال کریں۔ جب برف باری ہوتی ہے تو میں پانی لانے کے لئے دور نہیں جا سکتی تو میں برف پگلا کر پانی کا استعمال کر لیتی ہوں۔ جو میرے لئے کافی مشکل ہے۔وہیں گاؤں دڑھا کی ہی رہنے والی آسیہ کوثر جن کی عمر بائیس سال ہے۔ آسیہ بی اے کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں پانی لانے کے لئے دو کیلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ سارا وقت پانی لانے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ پڑھائی کرنے کا وقت ہی نہیں ملتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گورنمنٹ نے سوکھے نل تو ہمارے گھروں میں لگوا دیئے ہیں لیکن آج تک کبھی بھی ان میں پانی آتے نہیں دیکھا۔ ہر گھر میں سوکھے نل موجود ہیں۔ جن میں سانپ اور بیچوں بستے ہیں حتی کہ خواتین اور نوجوان لڑکیاں اسکولوں میں اور پیشہ ورانہ جگہوں میں داخلہ حاصل کر بھی لیتی ہیں۔ لیکن پانی کی قلت کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم، نوکری، اور باقی گھریلو کاموں کو صحیح ڈھنگ سے نہیں کر پاتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخرخواتین کو ہی کیوں پانی کا بحران بھگتنا پڑتا ہے؟ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیاں پانی کی قلت کی وجہ سے دشوار حالات میں تعلیم سے محروم ہو جاتی ہیں۔اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ سرکار نے پانی کہ بہتر سپلائی مہیا کروانے اور ہر گھر جل پہنچانے کی نیت سے مختلف اسکیمیں شروع کی ہیں جن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اسکیموں کا فائدہ ان دیہی علاقوں تک بھی پہنچایا جائے جہاں پانی لانے کی ذمہ داری،صنف نازک پر عائد ہوتی ہے،جس کی خاطر خواتین غیر محفوظ ہو رہی ہیں۔
وہیں مقامی سونیہ اختر پنچایت دڑھا کی رہنے والی ہیں۔ان کی عمر تیس سال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم پانی کے لئے سترہ سال سے ترس رہے ہیں۔ ہم نے ہر جگہ درخواست دی کہ ہمیں پانی دیا جائے۔ ہمارے بچوں کی پڑھائی اچھے سے نہیں ہو پاتی کیونکہ وہ اسکول جانے سے پہلے پانی ڈھونے پر لگ جاتے ہیں جسکی وجہ سے گھر پر پڑھائی نہیں کر پاتے۔ دو گھنٹے لگتے ہیں ہمیں پانی پر آنے جانے میں بہت مجبور ہیں۔ہم آخر کیاکریں، کہاں جائے؟وہ مزید کہتی ہیں کہ میں انتظامیہ سے اپیل کرتی ہوں کے ہمیں پانی دیا جائے تا کہ ہماری زندگی عذاب نہ بنے۔وہیں مقامی ربیہ کوثر جو دسویں کلاس کی طالبہ ہے وہ کہتی ہے کہ ہم پانی کی مانگ کر رہے ہیں لیکن ہمیں آج تک پانی میسر نہیں ہوا۔ ہم سب بہنیں بھی صبح سویرے چار بجے جاگتی ہیں پھر پانی لاتے ہیں اسکے بعد اسکول جاتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ساتویں کلاس کی ایک اور طلبہ جسکا نام شائستہ کوثر ہے، شائستہ نے بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ پانی کی قلت کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے اس گاؤں میں پانی کی بہت قلت رہتی ہے۔ پانی لانے کے لئے کافی مشکل راستے سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کئی بار ہم پانی اٹھا کر چل رہی ہوتی ہیں تو پاؤں پھسل جاتا ہے اور چوٹ آنے کی وجہ سے ہم پانی نہیں لا پاتی میں۔اس چھوٹی عمر میں پانی کا بہت بڑا گڑھا اٹھا کر لاتی ہوں۔میرے دماغ پر اسکا بہت اثر پڑتا ہے۔ جسکی وجہ سے میں اچھی طرح سے پڑھ بھی نہیں پاتی۔ لہٰذا میری یہی گزارش رہے گی ہمیں پانی کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے کچھ نہ کچھ حل نکلا جائے تا کہ ہمیں مزید دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شائد انتظامہ کو ان کی تکلیف پر رہم آجائے اور ان کی مشکلیں دور ہوجائیں۔(چرخہ فیچرس)