تحریر:-فاضل شفیع فاضل
احمد خان کافی دولت مند اور اپنے شہر کا ایک عزت دار شخص تھا۔ اس کے دو بیٹے حامد اور نوید اور اس کی بیگم حلیمہ اس کے خاندان کا حصہ تھے۔ احمد کا والد دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اتنی دولت پیچھے چھوڑ چکا تھا کہ احمد خان کی ساری زندگی عیش و عشرت کے ساتھ بسر ہو سکتی تھی۔ احمد خان کو دولت سے سے بے انتہا محبت تھی اور وہ اپنے بیٹیوں کے ہمراہ دنیا کی رنگینیوں میں اپنی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ان کی ماں حلیمہ بہت ہی نیک سیرت اور ایک دین دار خاتون تھی۔ حلیمہ ہمیشہ اپنے خاوند اور بچوں کو سمجھاتی رہی کہ دولت کی قدر کرنا سیکھو، لیکن گھر میں حلیمہ کی کوئی عزت نہ تھی۔ احمد خان نے اپنے بچوں کی پرورش میں بھی کوئی دھیان نہ دیا اور نتیجتاً اس کے دونوں بیٹے بری صحبت کے شکار ہوگئے اور وہ اسکول جانے کے بجائے سینما گھروں میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے رہے۔ احمد خان نہ تو خود ہی نماز پڑھتا اور نہ کبھی اپنے بچوں کو اس بات کی تلقین کی حالانکہ حلیمہ نماز پنجگانہ کی پابند تھی۔ حلیمہ نے اپنے بچوں اور شوہر کو راہ راست پر لانے کی بے انتہا کوششیں کیں لیکن وہ دولت کے نشے میں گرفتار ہو چکے تھے۔ حلیمہ پریشان رہنے لگی اور وہ اچانک بیمار ہوگئی۔ بیماری بڑھتی گئی اور چند روز میں ہی حلیمہ کی موت ہوئی۔ حلیمہ کی موت کے ایک ماہ بعد احمد خان نے دوسری شادی کر لی۔ نوری احمد خان سے عمر میں دس سال چھوٹی تھی، اس نے محض احمد خان کی دولت کو دیکھ کر اسے اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وقت گزرتا گیا، حامد اور نوید جوانی کی دہلیز پر کھڑے تھے، سینما دیکھنا، جوا کھیلنا، سگریٹ نوشی وغیرہ جیسے برے کاموں پر پیسے خرچ کرنا ان کی معمول بن چکی تھی۔ احمد خان کا پورا خاندان خدا کو بھول چکا تھا اور وہ اپنے دین سے کافی دور بھاگ چکےتھے۔ احمد خان کو اپنی دولت پر بہت گھمنڈ تھا۔
ایک رات احمد خان خواب میں حلیمہ کو دیکھتا ہے۔ حلیمہ ایک سرسبز اور خوبصورت باغ میں کافی خوش نظر آ رہی تھی۔ احمد خان بھی اس باغ میں حلیمہ کے پاس جانا چاہتا تھا لیکن باغ میں جانے کے لیے دربان سے اجازت درکار تھی۔ احمد خان دربان کے پاس جا کر حلیمہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ احمد خان اپنی ساری دولت دربان کے قدموں میں رشوت کے طور پر رکھ دیتا ہے کیونکہ جس باغ میں حلیمہ ٹھہراؤ کر رہی تھی وہ اتنا دلکش تھا کہ احمد خان اس باغ میں جانے کے لیے اپنی ساری دولت قربان کرنے کو تیار تھا۔ دربان غصے میں احمد خان کو دھکا دے کر ایک آگ کی گہری کھائی میں دھکیل دیتا ہے اور احمد خان جل کر راکھ ہو جاتا ہے، اچانک احمد خان کی آنکھ کھل جاتی ہے اور اپنے آپ کو زندہ دیکھ کر راحت کی سانس لیتا ہے۔ اس خواب کو احمد خان نے سنجیدگی سے نہ لیا اور محض ایک ڈراؤنا خواب سمجھ کر سب بھول گیا۔
حامد اور نوید نے شادی کر کے احمد خان کی دولت میں اپنا اپنا حصہ لے کر الگ الگ گھر بنوا لیے اور اپنے باپ احمد خان کو اس کی بیگم نوری کے ہمراہ چھوڑ دیا۔ نوری کو احمد خان سے دلی لگاؤ نہ تھا بلکہ نوری نے محض دولت کی لالچ میں احمد سے شادی کی تھی۔ جس عیش و عشرت کی نوری متلاشی تھی، وہ نہ ملنے پر نوری احمد خان کو چھوڑ کے چلی گئی۔ احمد خان زندگی میں تنہا رہ جاتا ہے۔ احمد خان کو اب کسی چیز سے مسرت نہ رہی کیونکہ تنہائی میں اداسی ہوتی ہے اور اداسی سے انسان کو ڈر لگتا ہے، ٹھیک اسی طرح احمد خان کو اپنی روح کی تنہائی سے ڈر لگنے لگا۔ احمد خان کے بیٹوں کو جب اس بات کی علمیت ہوئی تو وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ دراصل ان کو بھی اپنے باپ احمد خان سےکوئی دلی واسطہ نہ تھا۔ باپ کے لاڑ پیار نے انہیں اس قدر اندھا کیا تھا کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کا درد محسوس نہ کر سکے۔ حامد اور نوید نے اپنے باپ کی طرح بس دولت سے محبت کی تھی۔وہ یہی سوچ رہے تھے کہ اب احمد خان کی موت ہوجائے اور وہ بچی ہوئی جائیداد آپس میں بانٹ لیتے !
احمد خان تنہائی کی زندگی جی رہا تھا۔ اس کے پاس دولت تو تھی ،لیکن خوشی نہ تھی۔ صبح صبح احمد خان سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک وہ حادثے کا شکار ہوا اور اپنی ایک ٹانگ کھو بیٹھا۔ گھر کے اندر قید احمد خان کی کسی نے خبر تک نہ لی۔ نہ حامد اور نہ ہی نوید نے اس غم کی گھڑی میں احمد خان کا ساتھ دیا۔ احمد خان نے جن بیٹوں سے محبت کی تھی، آج وہ بے وفا نکلے۔ والد کی محبت و شفقت، عنایات و خدمات، محنت، حوصلہ و ہمت کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ والد ایک عظیم تحفہ خداوندی ہے جو ہر درد، دکھ سہ کر اپنی اولاد سے وفا کرتا ہے مگر آج احمد خان کی یہ محبت ناکام ثابت ہوئی اور اس کے نافرمان بیٹوں نے احمد خان کا غرور توڑ دیا۔
بستر پر پڑا احمد خان اب محتاج ہو گیا تھا حالانکہ ابھی بھی اس کے پاس دولت تو موجود تھی پر اس دولت کا فائدہ ہی کیا جو اس نازک مرحلے پر احمد خان کے کچھ کام نہ آ سکی۔ اس نے ہمیشہ دنیاو دولت سے محبت کی تھی اور آج احمد خان کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ دنیاوی چیزوں سے محبت رکھنا فضول ہے۔ احمد خان دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھا تھا، باقی سب کچھ بھلا کر اس کے حصول میں مگن ہو گیا تھا، دنیا اس کے دل و دماغ پر مکمل طور پر راسخ ہو چکا تھا۔ محبتِ دنیا کا راستہ چن کر آج احمد خان پچھتا رہا تھا۔ دنیا سے محبت کا راستہ دراصل گمراہی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ احمد خان کی زبان پر بالآخر اللہ کا نام آیا۔ دنیا کی محبت نے احمد خان کو رب کریم کی یاد سے غافل کر دیا تھا اور وہ اس کے حصول کے لیے جائز ناجائز، حرام حلال کی تمیز بھلا بیٹھا تھا نتیجتاً چند روزہ آسودگی تو شاید احمد خان کو حاصل ہوئی مگر آخرت کی ناکامی و نامرادی اس کی مقدر بن چکی تھی۔ احمد خان نے اپنی ساری زندگی اللہ کی نافرمانی میں گزاری تھی اور اس نے کبھی بھی اپنے اللہ کا شکریہ تک ادا نہ کیا تھا۔ آج اپنے آپ کو تنہائی اور بیماری میں مبتلا پاکر احمد خان اللہ کے حضور گڑگڑاتا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے حالانکہ اسے معلوم تھا کہ جو بھی اپنی دولت کا گھمنڈ کرے گا، دوسرے کے ساتھ غلط کرے گا، تکبر اور خیانت کے گناہوں کا ارتکاب کرے گا، اسے خدا کی محبت حاصل نہیں ہوگی لیکن ساتھ میں احمد خان یہ بھی جانتا تھا کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے گویا اللہ تعالی اپنے بندوں پر مہربان ہے اور وہ اپنے بندوں کی خطائیں معاف فرماتا ہے۔ احمد خان اللہ کی رحمت اور بخشش کا طلبگار تھا۔ وہ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ آگے کی زندگی صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بسر کرے گا کیونکہ یہی ایک کامیابی کا راستہ ہے۔ احمد کو احساس ہوتا ہے کہ اصل محبت کا حقدار بس اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اس کی بیوی، بچے سب چھوڑ کر چلے گئے، لیکن بس ایک اللہ کی ذات ہے جہاں توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
احمد خان نے اپنے پڑوس میں ایک خوبصورت مسجد کے ساتھ ساتھ ایک یتیم خانہ تعمیر کیا اور غریب اور مفلس لڑکیوں کی شادی کرانے کا ایک اہم کام ذمہ لیا اور کچھ ہی مدت میں احمد خان نے پچاس سے زائد غریب لڑکیوں کی شادی اپنے خرچے پہ کرائی۔ یہ سب دیکھ، اس کے بیٹوں نے احمد خان سے مزید جائیداد طلب کی کیونکہ ان کی نظروں میں احمد خان اپنا دماغی توازن کھو چکا تھا اور اسی لیے وہ اپنی دولت اس طرح ضائع کر رہا تھا۔ احمد خان کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے اپنے بیٹوں کو اپنی جائیداد سے بے دخل کر دیا۔ احمد خان نے مسجد کے باہر ایک چھوٹا سا کمرہ تیار کیا جس میں وہ رہنے لگا اور اپنی ساری جائیداد بیچ کر احمد خان نے ایک ہسپتال تعمیر کرنے کا کام شروع کیا جہاں غریبوں کا علاج ومعالجہ مفت میں کیا جائے گا اور اس کام کی ذمہ داری مسجد کے امام محمد علی کے سپرد کر دی گئی۔ اسی رات عشاء کی نماز ادا کرتے وقت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے احمد خان کی موت ہوتی ہے۔
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ