ڈولی گڑھیا
باگیشور،اُتراکھنڈ
فون: 9350461877
پہلے ہمارے ملک میں جب لڑکیوں کی شادی ہوتی تھی تو ان کی عمرتقریباً بارہ، تیرہ سال ہوتی تھی۔ جس کی وجہ سے ان میں تعلیم و شعور کی کمی لازمی تھی۔مگر وقت کے ساتھ لوگوں میں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے قدامت پسند سوچ اور روایت میں بہت سی تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی۔اس کے لئے لوگوں کو بیدار کیا گیا، قوانین بھی بنائے گئے، جس کی وجہ سے ملک کے لوگوں کی سوچ میں مثبت تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ کم عمری کی شادیاں اب بہت کم ہونے لگی ہیں۔لیکن بدقسمتی اور روایتی رسم رواج کی وجہ سے اس لعنت کو ابھی بھی ختم نہیں کیاجاسکا ہے۔ میں دسویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔ میرا گاؤں اُتراکھنڈ کے ضلع باگیشور سے 20 کلومیٹر اور کپکوٹ بلاک سے 5 کلومیٹرکی مسافت پر واقع ہے۔ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کی شادیاں آج بھی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہیں، یہ رواج زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ جس کا سب سے برا اثر لڑکیوں پر پڑتا ہے، زیادہ تر نا انصافیاں لڑکیوں کے ساتھ ہی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے لڑکیوں کو نا چاہتے ہوئے بھی کئی بار موت کے آغوش میں جانا پڑتا ہے۔ ہمارے گاؤں کی ایک بزرگ خاتون کھکھوتی دیوی نے بتایا کہ میری شادی 12 سال کی عمر میں میری رضامندی کے بغیر ہوگئی تھی۔ مجھے شادی کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا، کسی نہ یہ جاننے کی بھی زحمت نہیں کی کہ میں کیا چاہتی ہوں؟ مجھے پڑھائی کا شوق تھا لیکن وہ زمانہ ایسا تھا کہ لڑکیوں کو خاندان پر بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ جب لڑکی تھوڑی بڑی ہوتی تو اس کی شادی کی تیاریاں شروع ہوجاتیں، پھر تعلیم کی بھی کوئی اہمیت نہ تھی۔
جب میں شادی کر کے اپنے نئے گھر گئی تو مجھے اچھا یا برا، صحیح یا غلط کا کوئی علم نہیں تھا۔ چھوٹی عمر میں گھر کی ساری ذمہ داری میرے سر پر آگئی۔جس کی وجہ سے مجھ سے میرا بچپن چھن گیا،جس عمر میں میرے ہاتھ میں کھلونے ہونے چاہیے تھے، اس عمرمیں پورے گھر کی ذمہ داری کی زنجیروں میں مجھے جکڑ دیا گیا تھا۔ میں آزاد ہونے کے باوجود بھی آزاد نہیں تھی، میں اپنے ہی گھر میں اپنی مرضی سے کوئی بھی کام نہیں کرسکتی تھی۔ گاؤں کی ایک دیگر لڑکی نے بتایا کہ رسم ورواج کے مطابق میری بہن کی شادی بچپن میں ہی ہوگئی، حالانکہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن گھر کے حالات کی وجہ سے وہ بھی ہار مان گئی۔ ہم پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں، چونکہ ہماری بہنیں زیادہ ہیں اس لیے میری بہن کی شادی جلد طے پا گئی۔ میری بہن بڑی ہو کر نوکری کرنا چاہتی تھی،وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وہ اپنے سسرال والوں کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتی۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی توگزار رہی ہیں لیکن اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی مرضی سے۔ گھر والے اب میری بھی شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن میں نے صاف انکار کر دیا ہے، کیونکہ میں اپنی زندگی اپنی شرائط پر گزارنا چاہتی ہوں۔کرشمہ مہتا، دسویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ اس کی عمر صرف 15 سال ہے۔ اس نے بتایا کہ میری والدہ میری شادی اس لیے کر رہی تھیں کہ میرے خاندانی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ میرے والد نہیں ہیں، ہم تین بھائی بہن ہیں۔ میری دادی ہمارا گھر چلاتی ہیں۔ ہمارے رشتہ دار میں سے کسی نے میری شادی کے لیے لڑکا ڈھونڈ لیا تھا، ایک دن وہ ہمارے گھر بھی آیا۔ میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔لیکن گھر والوں کی خواہش کی وجہ سے ہاں کر دی۔ وہ لڑکا عمر میں ہم سے دوگنا بڑا تھا، اس کی عمر 29 سال تھی۔ مجھے پڑھنا تھا اور بڑے ہو کر نوکری بھی کرنی تھی، لڑکے والوں نے کہا کہ تم شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہو، تم اپنے ہر خواب کو پورا کرسکتی ہو۔ لیکن جوں جوں وقت گزر رہا تھا، لڑکا مجھ پر اپنا حق جتا رہا تھا۔ اس نے مجھے ا سکول جانے سے بھی منع کیا۔ جس کی وجہ سے میں ایک ماہ تک ا سکول نہیں گئی۔ ایک رات وہ لڑکا مجھے غلط طریقے سے چھو رہا تھا، مجھ سے گندی باتیں کر رہا تھا، مجھے یہ بات ناگوار گزری اور آخر کار میں نے شادی سے انکار کردیا۔ میں اپنی تعلیم کی وجہ سے اس قابل ہوئی کہ میں صحیح اور غلط کی تمیز کرسکی۔
گاؤں کی ایک دیگر دوشیزہ کی بھی شادی ہونے والی ہے حالانکہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی، گھر والوں کے دباؤ کی وجہ سے اسے شادی کرنی پڑرہی ہے۔ ہم نے اس کے والدین کو سمجھایا لیکن وہ نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ میری بیٹی ہے تمہیں کیا ہو رہا ہے؟، ہم اس کی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں۔ اب وہ شادی کرنے والی ہے۔ بہت ممکن تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرکے دیگر لڑکیوں کی طرح گاؤں اور ملک کا نام روشن کرتی۔ لیکن اس کی شادی چھوٹی عمر میں ہو گئی، تو وہ کیا کرپائے گی؟ گھر کی ذمہ داریاں اس سے پہلے ہی بندھ گئیں۔ لڑکی کو اجنبی کے گھر کا برتن سمجھا جاتا ہے، شادی کے بعد جہیز کے لیے لڑکی کے ساتھ جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا ہے۔ لڑکی کو طعنے، جھگڑے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کم عمری میں شادی کرنے اور پھر جلد حاملہ ہونے کی وجہ سے اس کا جسم بھی بہت کمزور ہو جاتا ہے۔ اس بات کا بھی خوف ہوتا ہے کہ آنے والے بچے کی زندگی بھی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ کم عمری کی شادیاں اکثر دیہاتوں میں ہوتی ہیں۔ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے ہیں، شعور نہیں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بچپن کی شادیاں ہوتی ہیں۔ موجودہ زمانے میں لڑکیوں کو مزید پڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ لڑکی اپنے فیصلے خود کر سکے۔ہم پرانے لوگوں کو سمجھا نہیں سکتے کیونکہ انہوں نے اپنی آدھی زندگی اسی سوچ میں گزاردی ہے، ہم آج کے دور کے لوگوں کو سمجھا سکتے ہیں۔ آنے والی نسل کو قدامت پسندانہ سوچ سے نہیں گزرنا پڑے گا۔ اگر یہ سوچ سب میں آجائے تو یہ راسخ العقیدہ رواج ختم ہو جائے گا۔
اس سلسلے میں اسکول کے پرنسپل ومل کمار کا کہنا ہے کہ مجھے پوتھنگ کے اسکول میں پڑھاتے ہوئے سات سال ہو گئے۔ اس عرصہ میں یہاں کتنے بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ کچھ لڑکیاں جو دسویں اور بارہویں جماعت میں پڑھتی تھیں ان کی شادیاہو چکی ہیں۔ اکثر بچیاں بارہویں پاس بھی نہیں کرتی ہیں کہ ان کی شادی ہو جاتی ہے۔ بچپن کی شادی کی وجہ سے لڑکیوں کو ذہنی، جسمانی اور معاشی مشکلات سے زندگی بھر گزارنا پڑتا ہے، وہ کم عمری میں حاملہ ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کی صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ گورنمنٹ اسکول پوتھنگ کی ٹیچر چندرا کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ چائلڈ میرج کے خلاف رہی ہوں، میں نے بچپن کی ایک شادی بھی روک دی تھی۔ دیہی علاقوں کے لوگوں میں تعلیم اور شعور کی کمی ہے، جب لوگ تعلیم یافتہ ہوں گے، لوگوں میں شعور آئے گا، تب ہی کم عمری کی شادیاں بھی کم ہوں گی۔ اکثر دیہاتوں میں لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو اجنبی کے گھر کا برتن سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ راسخ العقیدہ سوچ ہے جسے لوگ پہلے سے رکھتے چلے آ رہے ہیں۔ لڑکیاں تھوڑی بڑی بھی نہیں ہوئیں کہ ان کی شادی ہوگئی۔ اب اس کو بدلنے کی ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب لوگ اپنے خیالات کو بدلیں۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ2022 کے تحت لکھا گیا ہے۔(چرخہ فیچرس)