تحریر:-فاضل شفیع فاضل
انسانی معاشرے میں صحافت کا کردار اور اہمیت کی ضرورت کی جب یاد تازہ ہوتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہےکہ اکبر الہ آبادی کا درج ذیل شعر دہرایا جاتا ہے:
کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
صحافت کی اصطلاح زمانہ قدیم میں” صحف” یعنی صحیفہ اور ” صحائف” کی مقدس تحریروں کے لیے مخصوص تھیں۔ قرآن مجید میں بھی” صحیفہ” کا لفظ آٹھ مقامات پر آیا ہے۔ مقدس کتاب یا آسمانی صحائف کے قلمی نسخے تیار کرنے والے خوش نویس صحافی کہلاتے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا اعلیٰ ادب اور علمی اور فلسفیانہ تحریریں صحائف کے زمرے میں شامل ہونے لگے۔ اسی طرح پریس کی ایجاد کے بعد جب جرنلزم نے رواج پایا تو اخبارات، جرائد کا دور دورہ شروع ہوا تو اس نے صحافت کی شکل اختیار کر لی اور اس طرح آج کے دور میں لفظ صحیفہ کی جگہ موجودہ صحافت نے لے لی۔
صحافت ایک مقدس اور ذمہ دارانہ پیشہ ہے اور یہی وہ ذرائع ابلاغ ہے جس پر عوام اور لوگوں کا اعتماد ہے اور اس اعتماد کے عنصر کو برقرار رکھنے کے لئے صحافت پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جس کا پورا کرنا ہر اخبار اور صحافت سے جڑے کسی بھی ادارے کا بنیادی فرض بنتا ہے۔ دور جدید میں سوشل میڈیا کے ارتقا کے بعد صحافت کا لفظ وسیع ہو چکا ہے۔ لفظ صحافت محض اخبارات ،رسائل وغیرہ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ آج کے دور میں یہ لفظ سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بات اپنی وادی کشمیر کی کریں تو یہاں سب سے زیادہ صحافی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں گویا سوشل میڈیا صحافت کی اسیر میں آ چکی ہے۔ ایسے لوگ صحافت کے ساتھ جڑچکے ہیں جو صحافت کے لغوی معنی سے بالکل بے خبر ہیں۔ ان لوگوں کا کام محض ایسی خبروں کا فروغ دینا ہے جو کسی اہمیت کی مائل نہیں ہوتی۔ اسی غیر ذمہ دارانہ صحافت کا شکار رفیع آباد میں مقیم فیاض احمد راتھر ( فیاض سکارپیو) بنے جو کہ پیشے سے ایک ڈپٹی سرپنچ ہیں۔ بہت ہی سیدھا سادہ اور دل کا صاف انسان ہے بدقسمتی سے یہاں کے خودساختہ صحافیوں نے محض کچھ پیسوں کے عوض فیاض احمد راتھر کو سوشل میڈیا کا تماشہ بنا دیا ہے۔ حالانکہ فیاض احمد کے والد صاحب نے رو رو کے ان خود ساختہ صحافیوں سے التجا کی تھی کہ ” اس کا بیٹا ایک ذہنی مریض ہے، اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور برائے مہربانی اپنی خود غرضی کی خاطر میرے بیٹے کا تماشہ بنانا بند کیا جائے” یہ بات قابل ذکر ہے کہ فیض احمد راتھر کا انداز بیان بالکل مختلف ہے اور اس کے چہرے سے اس کا بھولا پن صاف صاف عیاں ہے۔ یہ خود ساختہ صحافی سماج کے ایک ناقص انسان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے اپنے سوشل میڈیا کی چینلوں کے فروغ کے لیے فیاض احمد کا تماشا بنایا جارہا ہے۔ دراصل یہ سوشل میڈیا پر اپنا سرکس جما رہے ہیں اور اس سرکس کا ایک کردار فیاض احمد (سکارپیو )ہے۔ کیا ان کا ضمیر مر چکا ہے؟ یہ تو پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ تعلیم سے یاد آیا کچھ دن قبل تعلیم کے ایک اعلی افسر کے یہاں بھی فیاض سکارپیو مہمان خصوصی تھے۔
کیا ایک سچا صحافی اس حد تک گر سکتا ہے؟ دراصل صحافت کا دائرہ محدود نہیں ہے۔ ہر گھر میں یہاں ایک خودساختہ صحافی موجود ہے جو کہ اصل صحافت سے بالکل بے خبر ہے۔ جو سماج نشے کی آغوش میں ہے، جہاں دن بہ دن خودکشی کی دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور جن کی ترجمانی کرنا ایک صحافی کا حق بنتا ہے، وہاں یہ لوگ فیاض احمد کے پیچھے مائیک لے کر انٹرویو کے لیے بھاگ رہے ہیں۔ فیاض احمد کی ویڈیوذ دیکھ کر میرا دل روتا ہے اور ان خود ساختہ صحافیوں پر ترس آتا ہے۔ یہ لوگ صحافت جیسے مقدس پیشے سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافت کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جاۓ۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے خود ساختہ صحافیوں کا بائیکاٹ کریں اور دوسری جانب گورنمنٹ انتظامیہ ایسے خودساختہ صحافیوں کے خلاف کوئی کاروائی رد عمل میں لائے۔ میری ان خود ساختہ صحافی حضرات سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہےکہ فیاض احمد کو اپنے حال پہ چھوڑ دیا جائے، اس کا تماشہ بنانا بند کیا جائے۔ بہت سے مسائل میرے سماج میں درپیش ہے جوکہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ صحافت جیسے مقدس پیشے کی قدر کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ مضمون کا اختتام اپنے ایک شعر سے کرنا چاہتا ہوں:
محض پیشہ نہیں ایک طریقۂ عبادت ہے
صحافی ہوں، میرا اصل مقصد صحافت ہے
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ