ریاض فردوسی۔9968012976
اللہ تعالی سورہ رعد آیت نمبر 2 میں ارشاد فرماتا ہے: اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظر آئیں۔پھر وہ اپنے عرش پر متمکن ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ان میں سے ہر ایک ایک وقت معین کے لیے گردش کرتا ہے۔وہی کائنات کا انتطام فرماتا ہے اور اپنی نشانیوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔سورہ ابراہیم آیت نمبر 32 اور 33 میں اللہ تعالی نے فرمایا:اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے مختلف قسم کے پھل تمہارے رزق کے لیے پیدا کیے اور کشتی کو تمہاری نفع رسانی میں لگا دیا تاکہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے،اور کام میں لگا دیا تمہاری ندیوں کو اور کام میں لگا دیا تمہارے سورج اور چاند کو ایک دستور پر برابر اور کام میں لگا دیا تمہارے رات اور دن کو۔اسی طرح سورج چاند،ستاروں دریا اور کشتیوں کے مسخر کرنے کا تکرار سورہ النحل آیت نمبر 12 اور 14 میں بھی ہوا ہے۔
سورج اور چاند کو مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ یہ دونوں ہمیشہ ایک حالت پر چلتے ہی رہتے ہیں۔مسخر کرنے کے یہ معنی نہیں کہ وہ تمہارے حکم اور اشاروں پر چلا کریں کیونکہ اگر شمس و قمر کو اس طرح انسان کا مسخر کردیا جاتا کہ وہ انسانی حکم کے تابع چلا کرتے تو انسانوں کے باہمی اختلاف کا یہ نتیجہ ہوتا کہ ایک انسان کہتا کہ آج آفتاب دو گھنٹے بعد نکلے گا کیونکہ رات میں کام زیادہ ہے دوسرا چاہتا کہ دو گھنٹے پہلے نکلے کہ دن کے کام زیادہ ہیں اس لئے رب العزت جل شانہ نے آسمان اور ستاروں کو انسان کا مسخر تو بنایا مگر اس معنی سے مسخر کیا کہ وہ ہر وقت ہر حال میں حکمت خداوندی کے ماتحت انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں یہ نہیں کہ ان کا طلوع و غروب اور رفتار انسان کی مرضی کے تابع ہوجائے۔اسی طرح یہ ارشاد کہ ہم نے رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کردیا اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان دونوں کو انسان کی خدمت اور راحت کے کام میں لگا دیا۔کشتیوں اور جہازوں مسخر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ہمارے کام میں لگا دیا کہ وہ اللہ کے حکم سے دریاؤں میں چلتے پھرتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی نے ہمارے لیے دن اور رات کا ہونا،بارش کا ہونا اور موسم کی تبدیلی وغیرہ مسخر کر دیا،اللہ تعالی کا یہ تسخیری قانون کیا ہے؟مدتوں تک کائنات کا مشاہدہ اور غور و فکر کرنے کے بعد سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ یہ سب کچھ کسی خاص اور متعین قوانین ( Definite اور Fixed laws) کے تحت ہو رہا ہے جسے فطرت کا قوانین ( laws of Nature) یا خدائی قوانین ( Divine laws) کہا جاتا ہے۔مثلاً ایک اسکول کا طالب علم بھی جانتا ہے کہ رات اور دن زمین کا اپنے محور
( Axis) پر روزانہ گردش کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔زمین اپنے محور پر چوبیس گھنٹے میں ایک بار مکمل چکر لگا لیتی ہے۔ اسے زمین کا روزانہ گردش ( Rotation of the earth) کہا جاتا ہے۔اسی طرح موسم کی تبدیلی زمین کے 365 دنوں میں سورج کا ایک مکمل چکر لگانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔اسے زمین کا سالانہ گردش ( Revolution of the earth) کہتے ہیں۔اللہ تعالی نے سورج اور چاند کو اس طرح سے مسخر کیا کہ دونوں کے لیے ایک خاص راستہ اور ایک خاص رفتار متعین کر دیا گیا اور دونوں اسی خاص رفتار سے اپنے اپنے راستوں ( orbit) پر چلتے چلے جا رہے ہیں۔ان دونوں کی رفتار میں نہ کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور نہ ہی یہ دونوں اپنے راستوں سے تجاوز کرتے ہیں۔اس طرح اللہ تعالی نے سورج اور چاند کو تکوینی قوانین کے تابع کر دیا تاکہ وہ انسان کے لیے خدمات انجام دے سکیں ۔
سورج اور چاند کے مسخر کرنے میں اللہ تعالی کی طرف سے اس حقیقت کا اعلان ہے کہ جو چیزیں انسانوں کے فائدے کے لیے مسخر کیا گیا ہو وہ انسانوں کا معبود نہیں ہو سکتا بلکہ جس اعلیٰ ذات نے ان چیزوں کو مسخر کیا دراصل وہی معبود ہے۔جس روز یعنی 20 جولائی 1969ء کو امریکی اسٹرانومر نیل آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong) خلائ سفر کرکے چاند کی سطح پر پہونچا اور اس پر اپنا قدم رکھا وہ دن مشرکوں کے لیے سب سے منحوس دن تھا کیونکہ جس چاند کے ساتھ انکے مذہبی عقائد و جذ بات وابستہ تھے وہ چاند انسانی قدموں کے نیچے
آگیا۔سائنس کی اس کمال نے مشرکوں کو یہ پیغام دیا کہ چاند کوئی معبود نہیں بلکہ ایک مخلوق ہے۔ جس کا ایک خالق ہے اور عبادت مخلوق کی نہیں بلکہ خالق کی ہوتی ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے،اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا،اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو ( سورہ فصلت آیت نمبر 37)
اللہ نے سورج اور چاند کو ہمارے لیے مسخر کر دیا یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند دونوں کے مدار اور رفتار متعین کر دیا۔سورج کے طلوع ہونے سے دن ہوتا ہے،جس میں انسان اپنا کام انجام دیتا ہے۔
سورج کی روشنی کے مدد سے پیڑ ہودے اپنی غذا تیار کرتے ہیں۔
جاڑے کے دنوں میں بچے اپنے جسم میں سورج کی توانائی سے وٹامن D کا synthesis کرتے ہیں۔قدیم زمانہ سے یہ سب ہوتا چلا آ رہا ہے لیکن جدید دور میں تحقیق اور دریافت سے انسانیت کو جو سب سے بڑا فائدہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسان سورج سے توانائی ( Solar energy) حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔آج بھی گاؤں اور دیہاتوں میں لوگ سورج کی توانائی انرجی کا استعمال کرتے ہیں۔
چاند سے متعلق جو سائنسی حقائق ہمیں معلوم ہوئ ہے وہ یہ ہے کہ چاند زمین کے چاروں طرف گھومتا ہے اور سورج کی روشنی سے چمکتا ہے۔ چاند سے بھی ہم استفادہ حاصل کرتے ہیں،رات کے اندھیرے میں چاند کی مدھم روشنی ہمارے کام آتی ہے۔سورج اور چاند کے کشش سے دریاوں میں جوار بھاٹا ہوتا ہے۔چاند کو دیکھ کر ہم اسلامی مہینوں کا تعین کرتے ہیں اور تہوار مناتے ہیں۔چاند کے مختلف مراحل متعین کیے گئے ہیں۔ جس رات کو چاند نظر نہیں آتا اس چاند کو New Moon کہا جاتا ہے، جس رات کو چاند کی پہلی تاریخ ہوتی ہے اس چاند کو Crescent کہا جاتا ہے،چاند کی سات یا آٹھ تاریخ کو چاند انگریزی کا حرف D کے طرح دکھائی دیتا ہے،چاند کے اس مرحلہ کو Quarter کہتے ہیں،چاند جب نصف سے زیادہ لیکن مکمل گول نہیں ہوتا چاند کے اس مرحلہ کو Gibbous کہتے ہیں اور چاند جب پورا گول ہوتا ہے اسے Full Moon کہتے ہیں۔یہ چاند کی چودھویں تاریخ ہوتی ہے،اس رات کو چاند اپنی پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہے،پھر دو تین دنوں کے بعد ہر رات کو چاند کی روشنی میں کمی آنے لگتی ہے اور چاند کی شکل و صورت میں تبدیلی آنی شروع ہونے لگتی ہے اور چاند Full Moon سے Gibbous اور پھر Gibbous سے Quarter اور پھر Quarter سے Crescent کی طرف واپسی کے مراحل سے گزرنے لگتا ہے اور بالآخر چاند بالکل دکھائی نہیں دیتا اور New Moon کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے اور اس طرح چاند اپنی منزلیں طے کرتا ہے۔عام زبان میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلے چودہ دنوں تک چاند Up journey کرتا ہے اور دوسرے چودہ دنوں تک چاند Down journey کرتا ہے اور اس طرح سے یہ سائیکل چلتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہمارے لیے کشتی کو مسخر کر دیا جس کی وجہ ہم کشتی اور جہاز کے ذریعہ دریا اور سمندر کا سفر کرتے ہیں اور اپنا تجارتی سامان ایک ملک سے دوسرے ملک یا ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک پہونچاتے ہیں۔اسی طرح سے اللہ تعالی نے مقناطیس،آواز اور بجلی کو بھی ہمارے لیے مسخر کر دیا۔ہم ان مادی چیزوں کے خواص کو معلوم کرکے بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔
جیسا کے اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ان اجرام فلکی،کشتیوں اور جہازوں کو قوانین فطرت کے ذریعہ تسخیر کیا گیا،اس فطرت کے قوانین کو سب سے پہلے اہل مغرب نے کائنات کا مسلسل مشاہدہ اور تدبر کرکے دریافت کیا۔ اہل مغرب نے یہ دریافت کر لیا کہ پانی میں لوہے کی ایک کیل کیوں ڈوب جاتی ھے جبکہ سمندر میں بڑی بڑی جہازیں یا دریاوں میں کشتیاں نہیں ڈوبتی۔تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ یہ سب اس قوانین فطرت کی وجہ سے ہے جسے تیراو کے کلیے یعنی laws of floatation کہا جاتا ہے۔ اس فطرتی قوانین کے جاننے کے بعد اہل مغرب نے پنڈوبی Submarines کا ایجاد کر لیا۔آسمانوں میں اڑتے ہوئے پرندوں کے نقل و حرکت کو دیکھ کر سائنسدانوں نے اڑنے کے اصول کو دریافت کر لیا اور ہوائ جہاز ایجاد کر لیا۔پرندوں کے اڑنے کا ذکر قرآن مجید میں ملتا ہے۔
کیا نہیں دیکھے اڑتے پرندے حکم کے باندھے ہوئے آسمان کی ہوا میں کوئی نہیں تھام رہا ان کو سوائے اللہ کے اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں (سورہ النحل، آیت نمبر 79)
اسی طرح اللہ تعالی نے پانی اور ہوا کو بھی ہمارے لیے مسخر کر دیا۔ پہلے ہم صرف یہ جانتے تھے کہ پانی پیاس بجھاتی ہے،پانی سے ہم غسل کرتے ہیں،پانی صفائی کے کام میں آتا ہے لیکن بعد میں پانی کے مخفی خصوصیات کو جاننے کے بعد ہم نے پانی سے بجلی Hydal power پیدا کرنا معلوم کر لیا۔ہوا جس کے چلنے سے گرمی کے دنوں میں ہمیں راحت ملتی ہے اور کشتیوں کو دریاوں میں چلنے میں مدد کرتی ہے اس ہوا سے ہم لوگوں نے انرجی Wind energy حاصل کرنا سیکھ لیا۔اسی تسخیری قانون کے تحت سائنسداں سمندر میں اٹھنے والے Cyclones کا لوگوں کو قبل از وقت اطلاع کر دیتے ہیں اور ان سے ھونے والے جانی اور مالی نقصانات سے اگاہ کر دیتے ہیں۔
12ویں اور 13ویں صدی میں جو صلیبی جنگیں ہوئیں ان میں مسلم سلطنتیں اور مسیحی سلطنتیں بہت بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں۔اس ٹکراؤ میں مسیحی قوموں کو بہت بڑی شکست ہوئی۔علاوہ ازیں 1453ء میں عثمانیوں نے قسطنطنیہ ( Constantinople) کو فتح کیا جس کے سبب ہزار سالہ مشرقی رومن ایمپائر کا زوال (Fall of Eastern Roman Empire) ہو گیا۔اتنی بڑی شکست کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں کے لۓ جنگ کا آپشن ہی ختم ہو گیا۔اس طرح حالات کے دباؤ نے اہل مغرب کو جنگ کے میدان سے ہٹاکر سائنسی تحقیق کے میدان کی طرف موڑ دیا۔اس طرح اہل مغرب کے درمیان فطرت کی دریافت کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔یہ کی سو سالوں تک برابر جاری رہا۔یہاں تک کہ اہل مغرب نے فطرت کے قوانین کے ذریعے اس جنگ کو امن کے میدان میں دوبارہ جیت لیا جو اس سے پہلے وہ مسلح جنگ کے میدان میں ہار چکے تھے۔قوانین فطرت کی دریافت کے میدان میں اہل مغرب مکمل طور پر کامیاب ہوۓ اور اپنی ان کامیابیوں کے ذریعے اہل مغرب پوری دنیا کے لیڈر بن گۓ.
اس کے برعکس جب مسلمانوں کی عالمی سیاسی قیادت نہیں رہی اور سلطنت عثمانیہ ( Ottoman Empire) کا زوال مسیحی قوم کے ہاتھوں ہو گیا اور یہودی قوم فلسطین میں متمکن ہو گئ اور ادھر برصغیر سے بھی مسلمانوں کی حکومت ختم ہو گئ،تو اس کے نتیجے میں ہم مغربی قوم سے متنفر ہو گۓ اور ہمارے اندر اہل مغرب کے خلاف ایک فطری نفرت نے جنم لیا۔مسلمان اللہ تعالی کے قانون انتقال اقتدار کو بھول گئے وَتِلۡكَ الۡاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ النَّاسِۚ ( اور یہ دن باری باری بدلتے رہتے ہیں ہم ان کو لوگوں میں: سورہ ال عمران، آیت 140)
جہاں ایک طرف اہل مغرب نے مادہ اور اسکی خصوصیات ( Matter and it’s properties) کا مطالعہ کرنا شروع کیا،آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر کرنا شروع کیا ( جس کام کو مسلمانوں نے بعد میں کرنا چھوڑ دیا ) اور مسلمانوں کے سائنسی علوم کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کراکر اس سے استفادہ حاصل کیا تو دوسری طرف ہم مسلمان قوم مغربی تعلیم سے بیزار ہو گۓ اور یہاں تک کہ مغربی ایجادات مثلاً پرنٹنگ پریس اور لاوڈ اسپیکر وغیرہ کے استعمال سے بھی بہت دنوں تک بیزار رہے جس کے نتیجے میں ہم وقت کے ساتھ آگے نہیں بڑھ پاۓ اور دوسری قوموں کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے رہ گۓ۔جس چاند ستاروں کے مسخر کی بات قرآن مجید میں کہی گئی اس کے تسخیری قوانین کو مسلمانوں کے بجائے اہل مغرب نے دریافت کیا اور جو قوم پہلے تلوار کے سہارے ہم کو مغلوب نہیں کر پائ وہی قوم سائنسی علوم کی طاقت سے آج ہم پر غالب ہو گئ ہے۔اس جدید دور میں بھی ہمارے پاس نہ تلوار کی طاقت ہے اور نہ ہی علم کی طاقت۔