ارچنا کشور
چھپرہ، بہار
دورِ حاضر میں خواتین ہر وہ کام کر رہی ہیں جس پر برسوں سے مردوں کی اجارہ داری تھی۔ لیکن بہت سے چھوٹے کام ایسے بھی ہیں جو عموماً خواتین ہی کرتی ہیں اور انہی کاموں نے انہیں پیشہ ورانہ اور خود کفیل بنا رکھا ہے۔سلائی اور کڑھائی بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے جو دیہی ہندوستان کی کم تعلیم یافتہ خواتین کو بھی خود انحصار بناتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق یہ ایک ایسا ہُنر ہے جس نے بڑی تعداد میں خواتین کو روزگار دیا ہے۔ جدیدیت کے دور میں سلائی کڑھائی کا یہ شعبہ بوٹیک کے نام میں تبدیل ہو گیا ہے۔ بوٹیک کے ہُنر میں روایت کے ساتھ مغربی اور اسٹائلش لباس اور فیشن کے رجحانات کے مطابق ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ اب اس شعبے میں بھی خواتین کاروباریوں کی تعداد میں اضافہ ہوہا ہے۔ یہاں ایک خاتون کاروباری اپنے لیے اور بہت سی دوسری عام خواتین کے لیے معاش کے راستہ کا انتخاب کرتی ہے۔ بہار کے چھپرہ شہر کی رہنے والی چھما نے بھی سلائی کرکے خود کو خود کفیل بنایا ہے۔ 2018 میں چھما نے اسے اپنے گھر سے شروع کیا اور 2020 میں کریتکا کریشن کے نام سے ایک بوٹیک شروع کیا۔چھما نے بتایا کہ ”شروع میں، میں خود سلائی کرتی تھی، لاک ڈاؤن کے وقت دیکھا کہ ہر کوئی اپنا کام کھو رہا ہے، سب گھر بیٹھے ہیں، اس وقت مجھے لگا کہ مقامی لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے، تاکہ ہر کوئی گھر بیٹھے سہولت سے کچھ کام کرکے آمدنی حاصل کر سکے۔ اسی خیال سے میں نے اپنا بوٹیک شروع کیا۔ پہلے میں اکیلی سلائی کرتی تھی، اب لوگوں کو سکھانا اور کام بھی دینا شروع کر دیا ہے۔ جیسے جیسے کام آگے بڑھ رہا ہے، کئی خواتین اس کام میں شامل ہوتی جارہی ہیں۔“
اپنے کام کے آغاز کے تعلق سے چھمانے بتایا کہ ”چھپرہ کوئی بہت بڑا شہر نہیں ہے، اس لیے یہاں لڑکیوں کے لیے بہت زیادہ آپشن نہیں ہیں اور لڑکیوں کے بارے میں عام لوگوں کی سوچ میں زیادہ مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ہمارے گھر میں، مجھے ہر طرح کا تعاون ملا،جس کی وجہ سے میں اپنا کام شروع کرنے میں کامیاب رہی۔ ورنہ یہاں کے زیادہ تر گھروں میں، میں دیکھتی ہوں کہ لڑکیوں پر بہت پابندیاں ہوتی ہیں، ایسا نہ کریں، ادھر نہ جائیں،وہاں کھڑی نہ ہوں وغیرہ۔ ہماری یہ ایک چھوٹی سی شروعات ہے، یہ خواتین کو بااختیار اور خود انحصار بنانے کی ایک کڑی ہے۔ گھر بیٹھ کر خواتین اپنا گھریلو کام بھی کرتی ہیں۔ اور اپنے فارغ وقت کو ہمارے ساتھ اچھی طریقے سے استعمال کر کے خود انحصار بھی بن رہی ہیں۔“چھما نے اپنی پڑوسی راموتی کو مفت میں ٹیلرنگ سکھائی تھی۔ لاک ڈاؤن کے وقت وہ اپنے گاؤں شیتل پور گئی اور وہاں اس نے اپنا سلائی سنٹر کھولا کر کام کرنا شروع کردیا۔ راموتی نے بتایاکہ ”میں پہلے چھپرہ شہر میں رہ رہی تھی وہاں میں نے چھما سے سلائی سیکھی۔ اس نے مجھے مفت میں سلائی سکھائی تھی۔ پھر کورونا کادور شروع ہوا،تب میں نے اپنے گاؤں آکر یہ سلائی کا کام شروع کیا۔ سلائی سیکھنے سے میری زندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ اب میں اپنے پیروں پرکھڑی ہوگئی ہوں، اب کسی کے آگے پیسوں کے لئے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی، ایک مہینے میں اتنا کما لیتی ہوں کہ اپنا کام خود کی کمائی سے آسانی سے کرسکتی ہوں۔“چھما نے مقامی دوشیزاؤں اورخواتین کے لیے روایتی اور مغربی لباس بنانے کے علاوہ متعدد آپشن کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا ہے۔ اس تعلق سے چھما نے بتایا کہ ”ہم کپڑے تو بناتے ہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم ہاتھ سے بنی ہوئی بہت سی چیزیں بھی بناتے ہیں۔ جیسے کہ لٹکن، نرم کھلونے، آرتی کی تھالیاں، کھرچیاں، چوڑیوں پر ریشم کے دھاگے کا کام، مٹی کے برتنوں پر پینٹنگ کے علاوہ ہم لوگ، اپنے گرہک کے لئے مہندی لگوانے کا بھی انتظام رکھتے ہیں۔“
چھما کے ساتھ کام کرنے والی انشو نے بتایا کہ ”ہم ابھی ٹیلرنگ سیکھ رہے ہیں لیکن وہ تمام کام جو ہاتھ سے کیا جاتا ہے، بلاؤز، ساڑھی گرنا، برتنوں پر پینٹنگ، چوڑیاں بنانا، مطلب، جو بھی کام ہاتھ سے ہوتا ہے، وہ کرلیتے ہیں۔ پیسے بھی 5سے6 ہزار کے قریب کمالیتی ہوں۔ تہواروں اور شادی بیاہ کے وقت زیادہ کام ہوتا ہے، پلیٹیں بنتی ہیں، کپڑوں کی سلائی ہوتی ہیں، اس وقت اور اچھے پیسے ملتے ہیں۔ میں اپنے کام میں زیادہ وقت بھی نہیں دے پاتی ہوں، کیوں کہ ہمارے گھر میں ساس، سسر، شوہر اور دو بچے ہیں، ان کے لئے کھانا پکا کر گھرسے آتی ہوں،واپس جا کر ان کے لئے پھر سے یہی سارے کام کرنے پڑتے ہیں، ان کی دیکھ بھال بھی کرنی ضروری ہے۔ میں اپنے کام میں صرف چار گھنٹے ہی دے پاتی ہوں۔“ مہندی آرٹسٹ ’انکیتا‘ کرتیکا کریشن کے ساتھ کام کرنے والی ایک گریجویشن کی طالبہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ”ہم مہندی لگانے کا ہُنر جانتے تھے۔ اس لیے میں نے 2020 میں یہاں شمولیت اختیار کی۔ مہندی کو شادیوں کے سیزن اور تہواروں کے وقت کے مطابق لگانا پڑتا ہے۔ یہ کام مستقل نہیں چلتا ہے، اس لیے تعلیم بھی جاری رہتی ہے اور کام کرنے میں بہت اچھا بھی لگتا ہے، جب اپنی محنت اور ہُنر کا پیسہ ہاتھ میں آتا ہے، تو فخر محسوس ہوتا ہے۔ پہلے جب ہم کماتے نہیں تھے تو ہمیں اپنے گھر والوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا، اب کبھی کبھی کالج کی فیس خود کی کمائی سے بھی ادا کر دیتی ہوں۔ “چھما نے اب تک تقریباً 15 لڑکیوں کو سلائی کے ساتھ دیگر ہُنر کا کام سکھا چکی ہیں، جن میں سے کچھ نے اپنے گھروں میں الگ سے سلائی کرنا شروع کر دیا ہے اور تقریباً 10 لڑکیاں اب بھی ان سے وابستہ ہیں۔چھما کہتی ہیں کہ ”ہمارے پاس ہر طرح کے ہُنرکا کام ہے۔ یہاں آنے والی لڑکیاں اپنی دلچسپی کے مطابق کام کرتی ہیں۔“
چھوٹے شہروں کے متوسط گھرانے کی اوسط لڑکیاں بڑے خواب تو ضرور دیکھتی ہے، لیکن ان کو پورا کرنے کی ہمت یکجا نہیں کرپاتی ہیں۔ وہ ہر روز سماجی مسائل اوراپنے خوابوں کے درمیان جدوجہد کرتی ہیں۔ 18سے20 سال کی عمر میں ان کی شادیاں ہوجاتی ہیں، بچے ہوتے ہیں اور پھر اسی کو اپنی دنیا سمجھ کر زندگی گزارنے پر مجبورہوجاتی ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ چھوٹے چھوٹے اقدامات کرکے بلندیوں کو چھونے کی کوشش ضرور کریں۔ اب مرکزی حکومت نے خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں گھر سے کام کرنے کی ترغیب دینے کے لیے سلائی مشین اسکیم بھی شروع کی ہے۔ اس کے تحت ہر ریاست کی 50 ہزار سے زیادہ خواتین کو سلائی مشینیں مفت دی جائیں گی۔ دیہی اور شہری دونوں علاقوں کی 20 سے 40 سال کی عمر کی خواتین کو اس اسکیم کا فائدہ ملے گا۔ یہی نہیں، اگر کسی کے پاس ایک ساتھ 30 بچوں کو تربیت دینے کی جگہ ہے تو وہ اپنا سلائی سنٹر بھی کھول سکتی ہیں۔یہ مضموں سنجوئے گھوش میڈیا اوارڈ 2022 کے تحت لکھا گیا ہے۔(چرخہ فیچرس)