ریاض فردوسی۔9968012976
بے شک ہم ہی نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم ضرور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں(سورہ الحجر۔آیت۔9)
رمضان المبارک میں اللہ نے اپنا کلام نازل کیا۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا!ہر نبی کو ایسا معجزہ دیاگیا جس کا مشاہدہ کرکے انسانیت ایمان لاتی رہی، مجھے اللہ پاک نے ایسا معجزہ وحی کی شکل میں دیا ہے (اس میں غور وفکر کرکے قیامت تک لوگ ایمان لاتے رہیں گے) مجھے امید ہے کہ روزِ قیامت میرے متبعین زیادہ ہوں گے)(بخاری شریف: 744/2، کتاب فضائل القرآن، باب: کیف نزل الوحی)
جلال الدین السیوطی لکھتے ہیں! ’’اعلم أنَّ المعجزۃ أمر خارق للعادۃ، مقرون بالتحدی، سالم من المعارضۃ”
ترجمہ’’معجزہ ایسے خارق عادت امر کو کہتے ہیں جس کے ساتھ تحدی بھی کی گئی ہو اور وہ معارضہ سے سالم رہے۔‘‘(السیوطیؒ، جلال الدین، علامہ، الاتقان فی علوم القرآن، بیروت: دارالمعرفہ، 1317ھ، جلد 2،ص۔228)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سیرت میں یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ آپ کو قرآن کریم کی تلاوت اور اُس کے معانی میں غور وخوض سے خاص شغف تھا، آپ خود بھی اس کا اہتمام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔قرآن کریم سے پہلے آسمانی کتابیں نازل کی گئی،لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لیے آئی تھیں،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی،بلکہ ان کی حفاظت کا کام انہی لوگوں کو سونپ دیا گیا تھا جو ان کے مخاطب تھے، جیسا کہ سورۃ مائدہ آیت 44 میں فرمایا گیا ہے لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ اس میں قیامت تک کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اس طرح فرمائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں اسے اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اگر بالفرض کوئی دشمن قرآن کریم کے سارے نسخے (معاذ اللہ) ختم کردے تب بھی چھوٹے چھوٹے بچے اسے دوبارہ کسی معمولی تبدیلی کے بغیر لکھوا سکتے ہیں جو بذات خود قرآن کریم کا زندہ معجزہ ہے۔تمام جن و اِنس اور ساری مخلوق میں یہ طاقت نہیں ہے کہ قرآنِ کریم میں سے ایک حرف کی کمی بیشی یا تغییر اور تبدیلی کرسکے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خصوصیت صرف قرآن شریف ہی کی ہے، دوسری کسی کتاب کو یہ بات میسر نہیں(خازن، الحجر، تحت الآیۃ۔9، 3 / 95، تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ:7،9/ 123)
اہم باتیں۔
(1) اللہ نے اپنے کلام کو معجزہ بنایا کہ بشر کا کلام اس میں مل ہی نہ سکے۔اگرچہ کوشش بہت ہوئی لیکن ساری کوشش ناکام ثابت ہوئی۔
(2) اس کو معارضے اور مقابلے سے محفوظ کیا کہ کوئی اس کی مثل کلام بنانے پر قادر نہ ہو۔
(3) ساری مخلوق کو اسے معدوم کرنے سے عاجز کردیا کہ کفار شدید عداوت کے باوجود اس مقدس کلام کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں،اگرچہ انہوں نے کوشش کی تب بھی ناکام ہی رہے۔
(4) سورۃ العنکبوت آیت۔49، میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی آیات اہل علم کے سینوں میں محفوظ رہتی ہیں۔’’اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبد القادر محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اصل جگہ سینہ ہے جبکہ کتابت امر زائد ہے۔یعنی قرآن کریم کا اصل مقام یہ ہے کہ اسے سینے میں محفوظ کیا جائے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دوسرے اسباب سے بے نیاز کر دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس بے نیاز اس کا کلام بھی بے نیاز ہے۔کلام اللہ ظاہری اسباب کا محتاج نہیں ہے۔کاغذ،قلم، سیاہی،کیسٹ،سی ڈی،ڈی وی ڈی،ان پیج،انٹرنیٹ اور اسی طرح کے سارے اسباب ختم ہو جائیں گے، ان کا وجود باقی نہ رہے گا،حتی کہ دنیا کی ہر کتاب ختم ہو جائے گی،ہر تحریر اور کلام فنا ہو جائے گا مگر قرآن کریم پھر بھی موجود رہے گا جو ان اسباب سے بے نیاز ہے اور لاکھوں اہل ایمان کے سینوں میں محفوظ ہے۔جب حکم ربی ہوگا قرآن مجید اٹھالیا جائے گا۔
(5) موریس بوکائلے کہتا ہے قرآن کی سب سے بڑی خوبی اس کی فصاحت و بلاغت ہے۔ مقاصد کی خوبی اور مطالب کی خوش اسلوبی کے اعتبار سے قرآن کریم کو تمام آسمانی کتابوں پر فوقیت ہے(موریس بوکائلے (Maurice Bucaille۔ پیدائش 1920ء) فرانسیسی طبیب تھے، جو جامعہ پیرس کے ہسپتال میں رئیس جراحی کے طور پر کام کرتے رہے۔ آپ کی سب سے زیادہ وجہ شہرت آپ کی کتاب ”بائیبل قرآن اور سائنس” ہے جس میں آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کی کوئی عبارت سائنسی نقطہ نظر کے خلاف نہیں جبکہ بائبل میں بہت سی عبارتیں جدید سائنسی حقائق کی نفی کرتے ہیں)
(6) کتاب اللہ زبان عربی کی سب سے شاندار اور مستند کتاب ہے۔کسی انسان کا قلم ایسا معجزانہ کلام نہیں لکھ سکتا۔سارے معجزات سے بڑھ کر یہ بے مثل معجزہ ہے۔کتاب اللہ نے ادب کا رخ عدل و انصاف،خدمت(بلا تفریق مذہب و ملت) انسان،تائید حق و صداقت،نفاست پسندی،عفت و حیا اور خدا پرستی کی طرف پھیر دیاہے۔
(7) اہل عرب کو اپنی مادری زبان کی زبان و بیان،فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا۔وہ غیر عرب کی زبان اور خود کی زبان میں زمین و آسمان کا فرق ثابت کرتے تھے،لیکن کتاب اللہ کو نازل کرکے اللہ نے انہیں ششدر کردیا،اور سب سے تعجب تو یہ ہے کہ ایسے مقدس انسان کامل ﷺ پر نازل کیا جو سوائے اللہ کے کسی کے شاگرد نہیں ہیں۔کتاب اللہ ادب کا سب سے عظیم شاہکار ہے۔ولید بن مغیرہ مخزومی (جو شخص عرب میں حسن تدبیر کے نام سے شہرت رکھتا تھا)اور دور جاہلیت میں مشکلات کو حل کرنے کے لئے اس کی فکر اور تدبیر سے استفادہ کیا جاتا تھا، اسی وجہ سے اس کو ’’ریحانہ قریش‘‘ (یعنی قریش کا سب سے بہترین پھول) کہا جاتا تھا،یہ شخص نبی اکرم ﷺ سے سورہ غافر کی چند آیتوں کو سننے کے بعد قبیلہ ’’بنی مخزوم‘‘ کی ایک نشست میں اس طرح کہتا ہے:
’’خدا کی قسم میں نے محمد ﷺ سے ایسا کلام سنا ہے جو نہ انسان کے کلام سے شباہت رکھتا ہے اور نہ پریوں کے کلام سے، ’’انَّ لَہُ لحلاوۃ، و انَّ علیہ لطلاوۃ و انَّ اعلاہ لمُثمر و انَّ اسفلہ لمغدِق، و انَّہ یَعلو و لا یُعلی علیہ‘‘ (اس کے کلام کی ایک مخصوص چاشنی ہے، اس میں مخصوص خوبصورتی پائی جاتی ہے، اس کی شاخیں پُر ثمر ہیں اور اس کی جڑیں مضبوط ہیں، یہ وہ کلام ہے جو تمام چیزوں پر غالب ہے اور کوئی چیز اس پر غالب نہیں ہے (مجمع البیان، جلد۔10،سورہ مدثر)
آخر میں!
یحییٰ بن اکثم فرماتے ہیں ’’مامون رشید کی مجلس میں ایک یہودی آیا اور اس نے بڑی نفیس،عمدہ اور اَدیبانہ گفتگو کی۔مامون رشیدنے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا۔جب ایک سال بعد دوبارہ آیا تو وہ مسلمان ہو چکا تھا اور اس نے اسلامی تعلیمات کے موضوع پر بہت شاندار کلام کیا۔مامون رشید نے اس سے پوچھا’’تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا ہوا؟اس نے جواب دیا’’جب پچھلے سال میں تمہاری مجلس سے اٹھ کر گیا تو میں نے ان مذاہب کا امتحان لینے کا ارادہ کر لیا،چنانچہ میں نے تورات کے تین نسخے لکھے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی،ا س کے بعدمیں یہودیوں کے مَعْبَد میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ تینوں نسخے خرید لئے۔پھر میں نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی۔جب میں یہ نسخے لے کر عیسائیوں کے گرجے میں گیا تو انہوں بھی وہ نسخے خرید لئے۔پھر میں نے قرآن پاک کے تین نسخے لکھے اور اس کی عبارت میں بھی کمی بیشی کر دی۔جب میں قرآن پاک کے وہ نسخے لے کر اسلامی کتب خانے میں گیا تو انہوں نے پہلے ان نسخوں کا بغور مطالعہ کیا اور جب وہ میری کی ہوئی کمی زیادتی پر مطلع ہوئے تو انہوں نے وہ نسخے مجھے واپس کر دئیے اور خریدنے سے انکار کر دیا۔اس سے میری سمجھ میں آگیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔اس وجہ سے میں نے اسلام قبول کرلیا (قرطبی، الحجر،تحت الآیۃ:5،9 /4، الجزء العاشر)
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
اگر تم سب مسلمان(نیک اور سچے) کی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن مجید کو زندگی کا حصہ بنائے بغیر ایسا ممکن نہیں۔
رمضان میں چند دنوں میں ختم قرآن ہونے کا نقصان یہ ہے کہ بعض لوگ خاص کر نوجوان تراویح کی نماز پڑھنا اور مسجد میں جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ نوجوان ایسی ہی مساجداورجگہ تلاش کرتے ہیں جہاں چند دنوں میں ختم القرآن ہوتا ہے۔ ایسے لوگ شب قدر کی نعمت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔(الاماشاء اللہ) اس کے لیے جزوی طور پر مساجد کے مہتمم اورچندلوگ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اگر انتظامیہ مساجد یا مدارس 19،23یا27رمضان المبارک میں قران مکمل کروایے تو نوجوانوں کو عبادت کرنے کے لیے زیادہ دن مل جائے گا۔انہیں شب قدر کی نعمت عظیم حاصل ہو جائے گی۔ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ ختم القرآن 3، 5یا 10 دنوں میں ہی ہو جاتا ہے،29 یا30دنوں کا مہینہ لوگوں کے اندر تقوی پیدا کرنے کا مہینہ ہے لیکن نوجوان اگر کم ہی دنوں میں مسجد سے غائب ہو جائے یعنی ٹریننگ پیریڈ سے پہلے ہی لوگ غائب ہو جائے گیں تو متقی بننے کا حدف ہی ختم ہو جائے گا۔اللہ مجھے معاف کرے میں بھی 10دنوں میں قرآن مکمل کر کے کسی مسجد میں تراویح ادا کر رہاہوں۔یہ روش بالکل غلط ہے چاہے کوئی کرے۔