تحریر:-فرحان بارہ بنکوی
خالقِ کائنات نے انسانوں کو وجود بخشا اور ان کی آسائش کے لیے تمام طرح کی چیزیں پیدا کیں۔ دنیا کی تمام چیزوں کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ: ان الدنیا خُلقت لکم یعنی تمام کی تمام کائنات کو انسانوں اور نسلِ آدم کے لیے وجود بخشا گیا ہے۔
یہ دنیا کی سر سبز و شادابی، پھلوں کی حلوت، پھولوں کی مہک، پانی کی مٹھاس و ٹھنڈک، رات کا سکون، صبح کی تازگی، چڑیوں کی چہچہاہٹ، نسیمِ صبح کے جھونکے، سب اس آدمِ خاکی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان تمام چیزوں سے انسان بہرہ ور اور منتفع ہوتا ہے؛ لیکن خود انسان کی تخلیق کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ: و انکم خلقتم للآخرہ یعنی نسلِ انسانی کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنی عبادات و معاملات کی صفائی ستھرائی سے خود کو آخرت کے ٹھکانے یعنی جنت کے لیے تیار کرے۔
خود صانعِ عالم نے انسانوں کی تخلیق کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ: وما خلقتُ الجن و الانس الا لیعبدون یعنی: میں نے انس و جن کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔
جب تخلیقِ انسانی کا مقصد ہی عبادت و ریاضت ہے تو انسان کو بغیر عبادت و ریاضت کے کیوں کر فرار حاصل ہوگا۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو اپنی عبادات کے بے شمار طریقے متعارف کرائے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر کی بندگی کے لیے جہاں ایک طرف رکوع و سجود پر مشتمل نماز ہے تو وہیں دوسری جانب اکل و شرب وغیرہ سے مانع روزہ ہے۔
ماہ رمضان المبارک میں ہر ہر لمحہ نیکیوں کے مواقع فراہم کراتا ہے۔ اس مبارک مہینے میں جہاں صوم فرض ہے تو وہیں اس ماہ میں قیام لیل کا بھی حکم وارد ہوا ہے اور بیس رکعت تراویح بالاجماع سنتِ مؤکدہ ہیں۔
اسی ماہ کے اخیر عشرے میں قیامِ مسجد یعنی اعتکاف بھی سنتِ مؤکدہ ہے، وہی اعتکاف کہ جسے رسول اللہﷺ کی سنت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہر سال رمضان المبارک کا اعتکاف فرمایا۔ ابتدا میں آپ ﷺ نے پورے ماہ کا اعتکاف بھی فرمایا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ میں نے شبِ قدر کی تلاش و جستجو میں پہلے عشرے کا اعتکاف کیا اور پھر اسی کی تلاش میں دوسرے عشرے کا بھی اعتکاف کیا؛ لیکن فرشتے نے آ کر یہ خبر دی کہ آپ جس شبِ مقدس کے منتظر ہیں اور اس شب کی عبادتوں سے قربِ الہی حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں، وہ شب اخیر عشرے کی طاق رات میں ہے؛ چنانچہ آپ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں نے شبِ قدر کی تلاش میں ابتدائی دونوں عشروں میں اعتکاف کیا تھا؛ لیکن وہ شب اخیر عشرے میں ہے؛ چنانچہ جنہوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا تھا، وہ اخیر عشرے کا بھی اعتکاف کریں۔ آپ ﷺ سے پورے مہینے کا بھی اعتکاف ثابت ہے؛ لیکن یہ آپ کی سنتِ متواتر نہیں ہے؛ بلکہ آپ نے اخیر عشرے کے اعتکاف کو لازم پکڑا تھا؛ چنانچہ آپؐ اور آپ کے صحابہؓ اخیر عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔
اعتکاف ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں مشغول ہو کر انسان ایسے تمام کارِ خیر سے محروم ہو جاتا ہے کہ جن کا تعلق مسجد سے باہر ہے، یعنی نمازِ جنازہ میں شرکت، بیمار کی عیادت، کمزوروں کی اعانت وغیرہ ممنوعاتِ اعتکاف میں سے ہیں؛ لیکن ان کارِ خیر سے باز رہنے کے باوجود اس کارِ خیر کا ثواب بہم پہنچتا ہے۔
حضرت عباسؓ کی ایک روایت میں اس کا ذکر ہے کہ ایک صحابئ رسولؐ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی پریشانی بیان کی، دراں حالاں کہ آپ اس وقت مسجد میں معتکف تھے؛ مگر ان کی پریشانی کو سن کر آپ مسجد سے باہر آ گئے، ان صحابی نے آپ کو معتکف ہونے کی یاد دہانی کرائی تو آپؓ نے فرمایا کہ میں نے سرورِ کائنات تاجدار مدینہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے حاجت مند بھائی کی حاجت روائی کرے تو اس کے لیے دس برس کے اعتکاف کے مانند ثواب ہے۔
ایک دوسری روایت میں سرکارِ دو عالم ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے رضائے الہی کے حصول کی نیت سے ایک دن کا اعتکاف کیا تو خدائے بزرگ و برتر اس کے اور جہنم کے درمیان تین ایسی خندقیں آڑ فرما دیں گے کہ جن کی مسافت ارض و سما کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ وسیع عریض ہے۔
معتکف ایسی نعمتوں کو حاصل کر لیتا ہے کہ جن کو غیر معتکف بہ آسانی حاصل نہیں کر سکتے۔ جیسے کہ: شبِ قدر کی عبادت اور ہمہ وقت اوراد و وظائف اور ذکر و اذکار سے زبان کا تر رہنا۔ مزید یہ کہ معتکف ان گناہ و معصیت سے بھی محفوظ رہتا ہے کہ جن سے غیر معتکف کا محترظ رہنا از حد دشوار ہے۔ جیسے کہ: لا یعنی گفتگو، غیبت، الزام تراشی، دشنام طرازی وغیرہ۔
سبحان اللہ! کیا شانِ فیاضی ہے اس صانعِ عالم کی کہ ایک دن کے اعتکاف کے عوض اس قدر اجر و ثواب ہے۔