شیفالی مارٹنز
راجستھان
رابطہ: 9350461877
زراعت ہمارے ملک کا ایک اہم پیشہ ہے، ہندوستان کے روایتی پیشوں میں اس کا ذکر بخوبی ملتا ہے۔دوسری جانب اکثر اظہار تشکر میں، ہم کسانوں کو اَن داتا کہتے ہیں۔ لیکن جس چیز پر کسی کا دھیان نہیں جاتا وہ لوہار کا ہاتھ ہے۔ جس نے کسان کو سب سے پہلے اناج اُگانے میں مدد کی۔ وہ ہاتھ جنہوں نے وہ سامان تیار کیا جس نے کسان کو بااختیار بنایا۔ وہ ہاتھ جو قدیم زمانے سے لوہے کی دھات کو مختلف شکلیں دے کر لوگوں کے کاموں کو آسان بنا رہے ہیں۔ گمنام گڈیا لوہار روایتی علوم کو اپنے کام میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ بغیر کبھی اسکول گئے اور نہ ہی وہ کبھی سائنس کے پریکٹیشنرز کے طور پر پہچانے گئے۔ بہت سے روایتی پیشوں اور فنون لطیفہ کی طرح خواتین اس کام کو آگے بڑھانے میں اگر زیادہ تعاون کرنے والی نہیں تو برابر کی شراکت دار ضرور ہیں۔ راجستھان کے اجمیر اورجے پور ہائی وے کے پاس پڈاسولی گاؤں میں گڈیا لوہاروں کی ایک بستی انتہائی غربت وافلاس میں رہتی ہے۔ اسی بستی کی ایک 60 سالہ خاتون ڈالی گڈیا لوہار کہتی ہیں کہ ”ہمیں نہیں معلوم کہ اسکول کیسا لگتا ہے؟ ہم نے پندرہ سال کی عمر سے کام کرنا شروع کیا۔ اس سے پہلے ہم اپنے والدین کے ساتھ بیل گاڑی پر لوہے کا سامان بیچتے ہوئے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں چلے جاتے تھے۔ کبھی کھانا ملتا تھا تو کبھی بھوکے رہنا پڑتا تھا۔ ہماری غذا کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔ اب صدیاں بدل گئی ہیں، لیکن ہماری حالت نہیں بدلی۔“
یہ لوہار اصل میں میواڑ سے تھے اور حکمرانوں کے لیے ہتھیار بناتے تھے۔ جب مہارانا پرتاپ نے اکبر کے ہاتھوں شکست کے بعد اپنی سلطنت کھو دی، تو لوہاروں نے خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گذارنے کی قسم کھائی کہ جب تک کہ ان کی بادشاہت واپس نہ ہو جائے، ہم ایک جگہ نہیں رکیں گے۔اس کے بعد سے ہی وہ اپنی بیل گاڑیوں پر اپنا سامان بناتے اور بیچتے پھرتے رہے، اسی بیل گاڑی کی وجہ سے ان کا نام گڈیا لوہار پڑاہے۔ترسیٹھ سالہ کتاب جو ڈالی کی بھابھی ہے، اس کی زندگی کا بھی سفر ایسا ہی رہا ہے۔ کتاب نے پندرہ سال کی عمر میں کھیتی باڑی اور بھیڑ پالنے کے لئے استعمال آنے والے سامان بنانا شروع کیا تھا۔ لوہار کی اس برادری میں خواتین دھات کو آلات کی شکل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جب مرد اونچی سطح پر بیٹھتا ہے، کوئلے کو گرم کرتا ہے اور لوہے کو مارتا ہے، تو عورت پہلے کوئلوں کو پنکھا کرتی ہے اور پھر جیسے ہی دھات کی شکل بن رہی ہوتی ہے، وہ اسے ایک شکل دینے کے لیے دوسری طرف سے مارتی ہے۔ یہ بڑی محنت، مشقت کا سخت کام ہے،اس انتہائی سخت عمل کے لیے نشانے اور سائنسی درستگی کی ضرورت ہوتی ہے،جس کو یہ خواتین بچپن سے ہی اپنے بڑوں سے سخت محنت کے دوران سیکھتی ہیں۔ خواتین سامان بنانے کے علاوہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں، ایک میلے سے دوسرے میلے، اپنی مصنوعات کو بیچنے کے لیے بھی جاتی ہیں۔ کتاب اپنی مصنوعات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ ”ہم چمٹا، چھلنی، دانتلی (ہاتھ کی آری)، کلہاڑی،ہنسیا اورکدال بناتے ہیں اور انہیں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں لے جاتے ہیں۔ ہم شہر سے لوہا اور کوئلہ منگواتے ہیں۔“ ان کے خاندان کی اگلی نسل کی خواتین، بدم (40)، سوگنا (30) اور ممتا (32) بھی اسی طرح کا کام کرتی ہیں اور ان کا بھی تعلیم سے بمشکل ہی کوئی واسطہ پڑا ہے۔لیکن اب چونکہ وہ گزشتہ ایک دہائی سے ایک ہی جگہ پر آباد ہیں، اس لیے ان کے بچے قریب کے ہی ایک سرکاری اسکول جاتے ہیں۔
گڈیا لوہارخواتین اپنے دن کا آغاز صبح سویرے کرتی ہیں۔ اگر لوگ ان کے پاس سامان خریدنے آتے ہیں تو وہ انہیں فروخت کر دیتی ہیں، ورنہ انہیں اپنا سامان فروخت کرنے کے لئے گاؤں جانا پڑتا ہے۔ ان کے کام میں کئی طرح کے خطرات بھی شامل ہیں، نہ صرف آگ کے پاس بیٹھنے کے معاملے میں، بلکہ چوٹ لگنے کا بھی اہم امکان ہوتاہے۔اس تعلق سے ڈالی نے بتایا کہ”ہم بعض اوقات زخمی بھی ہو جاتے ہیں، لیکن ہم کچھ نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ ہمارے کام کا حصہ ہے۔“ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کتاب نے مزید بتایاکہ ”ہم یہ کام کئی سالوں سے دن رات کر رہے ہیں، یہ بہت تھکا دینے والا ہے! ہماری اکثر سانس ختم ہو جاتی ہے۔“ تاہم ان کی محنت کے باوجود ان خواتین کی روزانہ کی آمدنی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ لوہار اب ایک جگہ پر آباد ہیں، لیکن ان کی زندگیاں مزید مشکل ہو گئی ہیں۔ بڑے پیمانے پر میکانائزیشن نے انہیں پہلے سے کم معاوضے سے محروم کر دیا ہے۔پہلے سب کچھ ہاتھوں سے بنایا جاتا تھا۔ اب، جدید طرح کی مشینوں سے تیار کردہ سامان موجود ہیں جو بہت سستے بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس پروڈکشن مشینیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، ان کی قیمت اکثر لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ہم کلہاڑی کے مختلف سائز بناتے ہیں اس پر منحصر ہے کہ آپ اس سے کیا کاٹنا چاہتے ہیں۔ اس کی قیمت 1300 روپے، 600 روپے یا 300روپے فی کلہاڑی ہو تی ہے۔ ہم میں سے تین چار مل کر ایک دن میں ایک کلہاڑی بناتے ہیں۔ جبکہ ایک مشین محض ایک دن کے چند گھنٹوں میں لاتعداد کلہاڑیاں بناسکتی ہیں اور ہر ایک کی لاگت بھی محض 150روپئے سے 300ر روپے ہی ہوتی ہے۔ پھر جو ہم بناتے ہیں اسے کوئی کیوں خریدے گا؟ ڈالی سوالیہ نگاہوں سے اپنی بات مکمل کرتی ہے۔
اب جو کچھ وہ خود بناتے ہیں اس کے علاوہ، کوئی لوہار خواتین کو سڑک کے کنارے بیٹھی دھات کے بنی ہوئی استعمال کی اشیاء جیسے تالے، زنجیریں، باورچی خانے کے چاقو، گھنٹیاں، مختلف قسم کے چمچے، چوہے کے پھندے اور اس طرح کی چیزیں بیچتے دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ ان کو خریدتے ہیں اور معمولی منافع میں بیچتے ہیں۔ اجمیر۔جے پور ہائی وے پر ڈوڈو گاؤں میں ایک شور مچانے والے چوراہے پر بیٹھی کملا گڈیا لوہار اپنی برادری کی دیگر خواتین کے اپنے سامان فروخت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔کملا گڈیا لوہار اپنی آمدنی اور خرچ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ”اگر ہم بیس ہزارروپے کا سامان خریدتے ہیں،تو ہماری کل کمائی محض دو ہزار ہوگی۔ ہم اس مہنگائی کے زمانے میں بھی محض دو سے تین ہزار روپے ہی ہر ماہ کما پاتے ہیں اور وہ بھی تب جب ہم صبح سے شام تک سڑک کے کنارے اس اسٹال کو چلائیں گے۔ دیکھو میں صبح سے یہاں بیٹھی ہوں اور ابھی تک صرف 50 روپے ہی کماپائے ہیں۔ صبح سے اب دوپہر بھی گزر چکی ہے۔ ہم اس رقم سے کھانے کے لیے درکار سبزیاں بھی نہیں خرید سکتے۔“سنتوش گڈیا لوہار کی بھی یہی کہانی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ”ہم فی شے پانچ سے دس روپے کماتے ہیں۔ ہم کلہاڑی اور کچھ دوسری اشیاء بناتے ہیں، لیکن باقی سب کچھ ہم فروخت کرنے کے لئے بازار سے خریدتے ہیں۔لوہے کا سامان بنانے کے ہمارے خاندانی کام کو نقصان پہنچا ہے“۔وہ بتاتی ہیں ”ہم اور کیا کرتے؟ ہم یہ سامان جے پور اور اجمیر سے خریدتے ہیں اور یہاں سڑک کے کنارے بیچتے ہیں۔ ہم 50 سالوں سے قریبی ملپورہ روڈ پر واقع گڈیا لوہار کالونی کے رہائشی ہیں۔“ میلے دستکاری کے فروغ کے لیے اہم جگہیں ہوتی ہیں، ان لوہاروں کے لیے یہ بھی آسان نہیں ہیں۔ ڈالی اپنی حالت زار بتاتی ہے کہ ”پشکر میلہ علاقے کا سب سے بڑا میلہ، اب ہمارے لیے منافع بخش نہیں رہا۔یہاں کے منتظمین ہم سے کرایہ کے طور پرتین ہزار روپے فی فٹ وصول کرتے ہیں اور اتنی رقم ادا کرنے کے بعد بھی وہ ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں۔ ہم کچھ بیچیں یا نہ بیچیں، ہمیں یہ کرایہ ادا کرنا ہی ہوگا۔ ہم سود پر رقم ادھار لینے کے بعد خریداری کرتے ہیں اور پھر بھی اپنا سامان فروخت نہیں کرپاتے ہیں۔
یہی کہانی اس علاقے کے دوسرے بڑے میلے – اجمیرشریف میں عرس کے موقع پر لگنے والے میلے کے لیے بھی صادق آتی ہے۔ وہ پورے مہینے کے لیے یکمشت کرایہ وصول کرتے ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے سے تھوڑے فاصلے پر اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ ہمارے لئے کچھ بھی ضمانت نہیں ہے! مانسون میں تیجاجی میلے کے دوران، ہم بہتے ہوئے بارش کے پانی کے پاس بیٹھتے ہیں، اپنا سامان بیچنے کے لیے جو بھی جگہ ہمیں ملتی ہے، ہم وہیں بیٹھ کر اپنا سامان فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،،۔ڈالی اپنے مستقبل کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہتی ہے کہ”ہماری زندگی صرف سڑک کے کنارے بیٹھ کر گزری ہے، لیکن ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی امید کرتے ہیں۔“ دریں اثنا اس کی پوتی بھوانہ، جو کلاس 2 کی طالبہ ہے، اسکول سے گھر لوٹتی ہے۔ اس سے پوچھاگیا کہ وہ کیا بننا چاہتی ہے تو وہ فخر سے کہتی ہے کہ ایک سپاہی اور وہ فوراً آرمی یونیفارم نما لباس میں بدل جاتی ہے۔ اس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ یہ کرنا اس کی پسندیدہ چیز ہے۔ بھوانہ اور اس کے کزن کے اپنے ہی خواب ہیں۔”ہم نے آن لائن کام کے بارے میں سنا ہے۔ ہو سکتا ہے، اگر ہمارے بچے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے قابل ہو جائیں، تو وہ ہمارے کام کی نمائش کے لیے آن لائن آپشنز کو دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن انہیں کون خریدے گا؟“ ڈالی کا سوال اس وقت بھی باقی ہے جب وہ فخر سے بھاونا کو دیکھتی ہے جو اب اپنی ’وردی‘ میں بستی کے ارد گرد بھاگ رہی ہے۔ کیا ڈالی کی ہمت اور کتاب کی حوصلہ افزائی ان کے نواسوں کی زندگیوں کی سمت کو امید کے نئے آلات میں ڈھال دے گی؟ بہت سے سوالات جواب طلب ہیں کیونکہ یہ محنتی خواتین اس دن کے انتظار میں ہیں جب ان کے ہاتھوں کا کام مقبول عام ہوکر اچھی قیمت پر فروخت ہوا کرے گی۔یہ مضمون سنجوئے گھوس میڈیا ایوارڈز 2022 کے تحت لکھا گیا ہے۔(چرخہ فیچرس)