یہی باری تعالی کی فنکاری کا حسن اور کمالِ ظرف ہے۔ کہ اس نے کسی بھی شے کو بے کار بے مقصد نہیں بنایا۔ہر کوی چیز وہ چاہیے زرے سے چھوٹا ہی کیوں ہو اور پہاڑ سے بلند پا کیوں نہ ہو، اپنے اپنے پاس ایک مدلل اور معنیٰ خیز مقصد رکھتے ہیں۔ اور ان تمام مخلوقوں میں شرفِ اشرف انسان کو حاصل ہے۔ تو پھر کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ انسان کو بن مقصد دنیا میں بیجھا گیا ہو۔ جب کہ ربِ کانات نے پیغمبروں پر نازل کی ہوی کتابوں میں صراحتاً اور اشارتاً اظھر من شمش کی طرح واضح کیا ہے۔ کہ ہم (اللہ) نے انسان کو دنیا میں کوٸی بےکار اور بے مطلب نہیں بیجھا نہیں بیجھا ہے۔ بلکہ ایک ذخیم مدعا سے اسے مبعوث کیا۔ اور وہ مقصد کیا ہے۔ وہ کتابوں کی سردار یعنی قرآنِ مجید میں جا بہ جا فرمایا۔ کہ ہم نے انسان کو اپنی عبادت کے لے بنایا۔اور عبادت صرف نماز، روزہ، زکواة اور حج ہی نہیں ہیں۔بلکہ اصل میں انسان کو زمیں پر خدا کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ اور خلیفے کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔ آپ سب اس سے واقف ہوں گیں۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا حکم نافذ کرنا ہی انسان کا مقصد ہے۔ انسان کا ایک ایک لمحہ عبادت سے خالی نہیں رہ سکتا ہے اگر وہ ہوش سے کام لیں تو۔ معاشرے کی فکر کرنا، سماج میں جن بدعات اور روسوماتوں نے اپنے شکنجھے گاڑے ہیں انھیں جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرنا اور اپنے دوست، عزیز و اقارب کا خیال کرنا یہ ہے وہ تعلیامات جو ہمیں روسولِ اکرم ﷺ نے سکھاٸی تھی۔ جس کو میں نے اور آپ نے نسیان کے سمندر میں ڈُبو دیا۔ اور اس لاپروای کا نتیجہ اور پھل ہم سب کی جھولی میں پڑا ہیں۔ افوس ہے کہ ہمارے ضمیر کے آنکھوں پر مادیت کی پٹی باندھی گٸی ہیں۔ موج مستی کے عالم میں آج کا مسلمان اتنا مگن ہوا ہے۔ کہ اسے اپنا آپ تک بھول گیا۔ اور پھر خلیفہ کا احساس ہونا دور کی کی بات ہے۔لیکن اللہ تعالی کی عادت ہے کہ اس نے انسان کو مقصد یاد دلانے کیلے کبھی اپنے برگزیدہ بندے اور کبھی آسمانی کتابوں کے نزول کا انتخاب کیا۔ کیوں کہ ایک فنکار کو اپنے شاہکار سے بے انتہا محبت ہوتی ہے۔ اور جب اللہ تعالی کے محبت کی بات ہو تو وہاں مجھ جیسے لاعلم کی کیا وقت ہے۔ وہ اپنے بندے کو ہر حال میں کامیاب و کامران دیکھنا چاہتا ہے۔ اور وہ کامیابی خدا نے روسولِ اکرم ﷺ کی مبارک زندگی میں پنہاں رکھی ہے۔ اسی لیا فرمایا جس نے میرے محبوب کی اطاعت کی وہ سرا سر کامیاب ہوگیا۔
خدا نے اپنے حبیب ﷺ کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہیں۔ اگر گننے لگو گیں تو سات سمندر کو اگر سیاہی بناٸی جاۓ اور جہانِ دنیا کے سارے درختوں کو اگر قلم بنا جا پھر خدا کے تحایف جو اس نے اپنے محبوب کو بخشے وہ لکھنے شروع کر دیں۔ تو سیاہی ختم ہوجاے گی قلم ٹوٹ جاۓ گیں۔ اور الفاظ بیانی سے قاصر رہیں گیں۔ اتنے اعزازوں سے اپنے محبوب کو نوازا ہیں۔ اور ان انعاماتوں میں سے ایک انعام ماہِ رمضان ہے۔ جو انسان کو اسکا سبق یاد دلاتا ہے۔ اگر اس مہینہ کو صیح زندگی گزارنے کا ایک کورس کہا جا تو کوی حرج نہیں۔ اس مہینے میں مسلمانوں کو قدرتی اچھے اعمالوں کی روح تازہ ہوجاتی ہیں۔ ہر ایک میں خدا پرستی کے انوار چہرے سے نمایاں ہوتے ہیں۔ نرم لحجہ، ایثار،اُخّوت اور ہمدردی کی چہل پہل ہوتی ہیں۔ یہ سب ماہِ رمضان کی خصلت اور سرشت میں ہے۔ غرض کہ اس کی قدر و قیمت اور اس کا فیض بہت بالا تر ہے۔یہ اس سے اندازہ ہوگا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے اس شخص کی حلاقت پر آمین کہا جس نے رمضان کا پایا اور پھر مغفرت نہ کرا سکھا۔ اب ہمیں خود ہی اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ کہ ہم کتنے کوشاں رہتے ہیں۔ اسی ماہ میں دستورِ حیات کا نزول بھی ہوا تھا۔ جو نظامِ زندگی کے اصول و ضوابط سے لبریز ہیں۔ اچھی معاشرت کو کیسے وجود میں لایں، ایک دوسرے سے کس طرح کا سلوک کریں، معملاتوں کا احساس کس سے کس انداز کا رکھا جایں۔ یہ سب قرآن مجید کے دروس میں مل سکتیں ہیں۔ حیف صد حیف کہ ہم اس سے بھی کنارہ کش ہو گیں۔ اب آپ ہی بتاو مقصدِ زندگی کیسے خاصل ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سکون کی تلاش میں بے سکون ہوگیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہم بے قدر ہیں۔ تو مجھے کہنے میں کوٸی ریب نہیں۔ ابھی وقت ہے مایوسی کی کوی بات نہیں۔ کہتے ہے کہ اس کے در میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایک رمضان کی قدر کریں اور ساتھ ساتھ مقصدِ حیات کو نگاہِ نظر رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت کی شربت سے سرشار کریں۔ ۔۔۔۔۔
از قلم۔۔ طارق اعظم کشمیری
ساکنہ۔۔۔ ہردوشورہ کنزر
رابطہ۔۔ 6006362135