ماہ رمضان اب چند روز بعد رخصت ہوا چاہتا ہے اور یوں پوری دنیا کے مسلمان عید الفطر منانے میں مصروف ہوں گے۔ بہر حال سال کے بارہ مہینے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہوئے ہم سے ہر سال رخصت ہوتے ہیں اور یوں انسان اپنی آخری منزل کی طرف سفر جاری رکھتا ہے۔ تاہم دنیا کے اس سفر میں انسان کو کن دشواریوں اور کن مراحل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ متعدد ہیں جن میں بے قابو ہوتی مہنگائی اہمیت کی حامل ہے۔ وادی بھر کے بازاروں میں سال بھر مہنگائی کا جن بوتل سے باہر ہی تشریف رکھتا ہے جو اپنی بربریت کے ذریعہ سادہ لوح صارفین کی کمرتوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ مال دار لوگوں پر بھی اب مہنگائی کی یہ مار ضربیں لگانے سے نہیں چوکتی، جبکہ متوسط طبقہ اور غریب لوگ تو موجودہ مہنگائی سے انتہائی پریشان نظر آرہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سرکار کی جانب سے جس محکمہ کو بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اعتدال پررکھنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی اور خاطی دوکانداروں کیخلاف قانونی کارروائی کی ذمہ داری دی گئی تھی لیکن ایسا آج تک زمینی سطح پر دیکھنے کو نہیں مل پایا۔ یا تو رمضان کے پہلے دو تین دنوں میں یا عید الفطر سے قبل عرفہ کے روز محکمہ محض اخباروں میں اپنی موجودگی بنانے کیلئے شہر کی چند گلیوں میں گھوم کر چند دوکانداروں پر سطحی کارروائی عمل میں لاکرباحس اور سنجیدہ عوام کو شاید شیشے میں اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ’’یہ پبلک ہے، سب جانتی ہے‘‘ کے مصداق عوام اب اس سرکاری محکمہ کی سرگرمیوں سے پوری طرح واقف ہوچکا ہے۔ اب جبکہ عید الفطر کو چند ہی روز رہ گئے ہیں اور بازاروں میں صارفین کا ماضی کے مقابلہ میں کم ہی‘ تاہم ٹھیک ٹھاک رش نظر آرہا ہے جو عید کی تیاریوں میں خریداری کرنے میں مصروف عمل ہے۔ تاہم اس بار یہاں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اور وہ بوتل میں واپس جانے کیلئے قطعی طور پر تیار نظر نہیں آرہا ہے کیوں کہ بوتل سے باہر آچکے جن اور اس کے آقائوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ سرکار یا متعلقہ محکمہ اُن کا بال بھی بیکا نہیں کرپائے گی، تب ہی تو وہ بڑھی ڈھٹائی کیساتھ صارفین کو دو دوہاتھوں سے لوٹنے میں مشغول ہے۔ ریڈی میڈ گارمنٹس ہوں، جوتے، چپلیں ہوں یا غذائی اجناس یہ چیزیں نہ صرف غریب بلکہ بعض متوسط کنبوں کے بجٹ سے بھی باہر ہوچکے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے بازاروں میں وہ دھوم دھام نہیں ہے جو ماضی کے تہواروں پر دیکھنے کو ملتی تھی۔ اگر اس سب کی وجہ معلوم کی جائے تو بس اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ متعلقہ محکمہ کی بے بسی، غفلت اور لاپرواہی کیساتھ ساتھ دوکانداروں کی من مانیاں جنہوں نے سرکاری ریٹ لسٹ کو یا تو محض آویزان رکھا ہے یا تو ردّی کی ٹوکری کی نذر کردیا ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دوکانداروں کے سامنے سرکاراور اس کے مشتہر کئے گئے ریٹ لسٹ کی کیا اوقات ہے۔ عوام بے بس اور لاچار ہوچکے ہیں، وہ شکایات پر شکایات درج کرکے تھک چکے ہیں اور ان پر کوئی ٹھوس کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مایوس بھی ہے۔ لہٰذا اس بے قابو ہوتی مہنگائی سے کیسے عوام کو نجات دلائی جائے، سرکار کو اس بارے میںسنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو کہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔