تحریر :حسن پروازؔ
دِن، ہفتے، مہینوں اور سالوں کی گردانی میں صدیاں گذر جاتی ہیں اور انسانی حیاتی کی کہانی بنتی اور مٹتی رہتی ہے۔وقت کی اسی گردش میں اللہ جانے کتنے لوگوں کی حیاتی کی کہانیاں زمانے کی گردش کی دھول میں دھندلی پڑتی پڑتی مِٹ جاتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ انسان ایسے اپنے کتنے محاسن کو اپنے ذہنی گوشوں سے بھی مِٹا دیتا ہے۔لیکن ان میں سے کچھ لاکھ کوشش اورزمانے کی بے مروتیوں کے باوجود ذہن کے دریچوں میں جھلکتے رہتے ہیں۔ان کی مثال ان چراغوں کی مانند ہے جو آندھی طوفاں میں بھی روشن رہتے ہیں۔
بقول شاعر:
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
کچھ چراغ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کبھی دل کے دریچوں میں مدھم نہیں ہوتے۔یہ تو دل کی بستیوں میں گُل کاریاںکرتے سدا بہار بن جاتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ زمانے کی بے مہریاں اور بے مروتیاں اپنی دھول مٹی میں تواریخ کے کئی انبار مٹاتی آئی ہے جن میں سے کچھ توںزیر زمیں ہو گئیں لیکن کچھ نے اپنی شناخت کو اجاگر رکھتے ہوئے اپنے سینے پر محرومیوں کی لکیروں کو مٹا کر اپنے ماضی کی اصل داستان کے بیش قیمتی الفاظ کے ساتھ اپنے ہییت کو بلند رکھا۔ہماری نئی نسل تاریخ سے اجنبی تو ہے ہی اس کی کھوج میں بھی کوری ہے۔یہ ہماری بے رخی نہیں تو کیا ہے؟جو قوم اپنی جڑوں سے نا آشنا ہو جائے وہ عروج کی منازل تک کیسے اڑان بھر سکتی ہے۔اپنے گھروں کا رستہ گر ہم اجنبیوں سے دریافت کریں گے توبربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ضرورت ہے تواریخ کی کچے دھاگوں کو ٹوٹنے سے بچا لیا جائے۔
ہماری تاریخ کے اوراق کا ایک ایک لفظ اپنے اندر کئی ہستیوں کی یادوں کو لپیٹے ہوئے ہے۔جنھوں نے اپنے آپ کو قوم کے نام وقف کئے رکھا اور اپنا مال دولت کو ترک کر کے قوم کی غرقاب کشتی کو کنارے لگانے کیلئے بے لوث خدمات کیںاور کبھی مایوس نہیں ہوئے۔یہی ہستیاں اس دھرتی کے چپے چپے پر پھول بن کر کھلیں اور زمانے کے بے رحم طوفانوںکواپنی سینے پر جھیل کر قوم کو ظلم، ناانصافی اور بے مروتی کے دہکتے شعلوں سے بچائے رکھا۔ظلم کے بادلوں کوبکھیرنے والے یہ نورانی چاند سچ میں ہی ایسا چانن لگا گئے جس کی چاندنی آج بھی بے داغ جھلک رہی ہے۔ایسی ہی ایک شخصیت نے پیر پنجال کی آغوش میںضلع راجوری کی تحصیل درہال کے گاؤں ’’لیراں‘‘میں 1920 ء میں ‘باجی بکروال’ کے گھر میں آنکھیں کھولیں۔یہ وہ نرنگی خوشبودار پھول تھا جس کی ملائم کومل پتیوں نے نہ صرف مرجھاتے پھولوں میں اپنی لیاقت کا رس بھرا بلکہ ان کو اپنے آپ کو بچائے رکھنے اور سربلندی کا حوصلہ دیا۔اصل میںخطہ پیر پنجال باصلاحیت لوگوں کاایک مرکزہے جس نے زندگی کے ہرشعبے میں گراں قدرشخصیات کوجنم دیاجنہوں نے سماج کوترقی کی سمت لانے میں نمایاں رول اداکیا۔اس خطے میں معاشرے کی ترقی میں اولیاء اللہ کے ساتھ ساتھ سماجی شخصیات مثلاًچوہدری دیون علی کھٹانہ، چوہدری گلزار احمد کھٹانہ ،مولانا دل محمد، گمبھیر مغلاں کی مائی فقیرنی، سائیں لال دینؒ مرگاں والے، مرزا محمد خان، مرزا اکبر، چوہدری محمد حسین، میاں عبداللہ اخوڑی والا،میاں حبیب، فیض حسین انقلاب ،میاں فتح محمد درہالویؔ، قاضی جلال دین وغیرہ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔یہاں ایک ایسی سماجی بلندپایہ شخصیت کاتذکر ہ کرنامقصودہے جس نے سماجی خدمات کی بدولت عوام الناس کے دِلوں میں جگہ بنائی۔جو سادگی کا پیکر تھی لیکن صلاحیتوں کا گراں قدر خزانہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔یہ وہ ہی شخصیت ہے جس نے ایک گوجر بکروال گھرانے میں آنکھیں کھولیںاور لال دین سے مولوی لال دین کہلوائی۔ حاجی باجی بکروال اپنے ریوڑ (بکریوں اور بھیڑوں) کی بڑی تعداد کے لیے مشہور تھے۔ حاجی باجی بکروال کے 8 بیٹے اور 3 بیٹیاں تھیں اور ‘مولوی لال دین’ صاحب ان کے پانچویں بیٹے تھے۔مولوی لال دین نے اپنی ابتدائی تعلیم سوکڑ، درہال کے ایک اسلامی مبلغ مولانا ثناء اللہ کشمیری جی سے ایک مدرسہ سے حاصل کی۔
شادی
موصوف کی شادی1942 ء میں، راجوری کے گاوْں پنہڈکے میاں حبیب کی صاحبزادی ‘فاطمہ بی’ سے ہوئی جو کہ مشہور شاعراور سماجی کارکن فیض حسین انقلاب کی بہن بھی تھیں۔ میاں حبیب نے اپنی صاحبزادی فاطمہ بی کی شادی شرعی اصولوں کے عین مطابق نہایت سادگی سے انجام دی جس میںباراتیوں کی کل تعداد صرف 21 تھی اور ان باراتیوں کی خاطرتواضع "سرسوں کے ساگ(سبزی) اور مکی کی روٹی کے علاوہ چاول اور دہی کے ساتھ پیش کی گئی تھی ۔ اس وقت میاں حبیب نے اپنی بیٹی کو ایک گائے اور کچھ بھیڈ بکریاں بطورتحفہ پیش کی تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب غربت سر چڑھ کے بول رہی تھی اور یہ قوم سوتیلے سلوک کی آگ میں جھُلس رہی تھی۔ہر طرف حق تلفی اور ظلم و ستم کی داستانیںسنائی دیتی تھیں۔یہ حقیقت ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے توں مالکِ کائنات سماج میں کچھ ایسے نڈر اور بے باک شخصیات کو پیدا فرماتا ہے جو زوال پذیر معاشرے کی زبون حالی کے خاتمے کیلئے کمر بستہ ہو جاتے ہیںاور پوری قوم میں بیداری کی چنگاری سلگانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دہکتی آگ کو اپنے خون کے چھینٹوںسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اپنے آپ کو خلق خدا کیلئے وقف کر دیتے ہیں۔ایسی شخصیات کو قوم کبھی نہیں بھولتی۔ مولوی لال دین صاحب نے ان تمام مظالم اور بے بسی کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور جھیلالیکن کبھی مایوس نہیں ہوئے بلکہ حالات کو سمجھنے سمجھانے اور حق شناسی کا درس عام کیا۔اپنء ہمعصرلوگوں کے ساتھ مل کر عوام کے اندر جہالت کو دور کرنے ،دینی اور دنیاوی علم سیکھنے ،غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے ،آپسی مد دامدادکرنے اور سماجی بدعات سے نجات پانے کا درس دیا اور قوم کو زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کی ہمت دی۔
مولوی لال دین صاحب نے کنکریلے راستوں کے پرواہ کیئے بغیراپنی قوم اور معاشرے کی بہتری کیلئے لگن کے ساتھ کام کیا۔مثلاً 1947 ء میں جب قبائلی حملہ آور جموں و کشمیر میں داخل ہوئے اور لوگوں کوپریشان اور ماحول کوخراب کر رہے تھے۔ ایک قیامت خیز رات کے دوران مولوی لال الدین صاحب کا ان قبائلیوں سے مقابلہ ہوا اور انہوں نے انھیں پکڑ لیا اور گلا کاٹنے ہی والے تھے کہ انہوں نے حاضردماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ یہاں مارنے کے بجائے مجھے کچھ گزآگے لے جاکرماریں۔ قسمت کاکھیل دیکھیے،قدر ت کوکچھ اورہی منظورتھا۔قسمت نے ساتھ دیاجیسے ہی انہیں آگے لے جایاجارہاتھاتومولوی لال دین رات کے اندھیرے کافائدہ اُٹھاکر ان قبائلی حملہ آوروں کے چنگل سے بھاگ گئے۔
وہ ہمیشہ بہتر کی جستجو میں رہتے تھے ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی اولاد بھی غلامی اور جہالت کی دلدل میں پھس کر کسمپرسی کی زندگی گذارے اسی لئے سنہ 1959 ء میں مولوی لال دین صاحب اپنے بچوں کے لیے بہتر زندگی کی تلاش میں اور اپنے ریوڑ چرانے کے لیے گاؤں لیراں سے ہجرت کر کے تحصیل نوشہرہ کے گاؤں راج پورکمیلا میں آکر آباد ہوگئے۔ انہوں نے اپنے گھر موہڑہ، کمیلا کوٹ میں ایک مدرسہ (اسلامی اسکول) شروع کیا، جس میں غریب گھرانوں کے بچوں کو دینی اور جدید تعلیم دی جاتی تھی، جو اسکول کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے نوشہرہ کے دور افتادہ سرحدی علاقے میں گلہ بٹائی (اڈا ہسا) پر مقامی کسانوں کے کھیتوں میں بھی کام کیا۔
سماجی زندگی
مولوی لال دین صاحب جس مصیبت سے نقل مکانی کر آئے تھے اس نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔شاہوکاری، سودخوری اور ظلم و جبر کا اژدہ یہاں بھی پھن پھیلائے بیٹھا تھا ۔غریب کے جسم سے چمڑی بے شک اتر جائے لیکن وہ بلا معاوضہ ان کے ہالی، مانجھی اور گھریلو غلام بن کر خدمت کرتے رہیں۔حکمران ٹولہ عوام کی قضا و قدر کا مالک بن بیٹھا تھا اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق سیاسی،سماجی اور معاشرتی و معاشی فیصلے کئے جاتے تھے۔ایک طرف فیض حسین انقلاب نے اس کے خلاف نعرہ بلند کیا تو مولوی صاحب نے بھی اس ضرورت کو محسوس کیا۔ انقلاب صاحب نہ صرف ان کے قریبی رشتے دار تھے بلکہ سماجی خدمات کی وجہ بھی بنے۔ انہوں نے جب ایسی سیاست کا تماشہ دیکھا جہاںنہ ہی کوئی فکری و جمہوری عمل تھااور نہ ہی غریب کی داد رسی کا کوئی ذریعہ توانہوں نے سیاسی لوگوں کے ساتھ اس متعلق گفت و شنید کا سلسلہ شروع کیا جس کی بدولت اپنی بھینس نہ سہی کچھ نہ کچھ ملنے کی امید بن گئی۔یہ تحریک عوامی بیداری اور جمہوری اقدار کا نقارہ بن گیا۔حق گوئی کی یہ صدا گھر گھر کی آواز بن گئی۔انہوں نے دوسروں کے لئے وہی کچھ پسند کیاجو اپنے لئے پسند کرتے تھے۔وہ بھولے بھٹکے اور گمراہوں کے لئے چراغ راہ تھے ۔وہ لاچاروں ،کمزور وں اور کسمپُرسوں ،ناداروں و غریبوں کے زبردست ہمدرد و غمخوار تھے۔وہ سماجی نا انصافی کے خلاف لڑائی لڑنے والا بے خوف و نڈر سپاہی تھے۔وہ احساس کمتری اور احساس برتری دونوں کے دشمن تھے۔وہ ظلم و نا انصافی سے چیختی چلاتی آدمیت اور سسکتی و کراہتی انسانیت کا مسیحاتھا۔
اسی خاطرمولوی لال دین صاحب اکثر سیاسی ، سماجی اور روحانی شخصیات کے ساتھ ملتے رہتے تھے اور ان کی صحبت میںحاصل ہونے والے انمول موتیوں سے دامن بھرتے رہتے تھے۔انھاں نے چار سوسے کافی اولیا ء اللہ ،ولیوں اور اللہ کے نیک بندوں سے روحانی فیض حاصل کیا۔روحانی طور پر وہ سلسلہ نقشبندیہ سے جُڑ گئے اورحضرت میاں نظام الدین لاروی ؒ سے بیعت ہوئے ۔یہ ان بزرگوں کی ہی نگاہ کرم تھی کہ مولوی لال دین نے جس میدان میں قدم رکھا ان کے قدم ڈگمگائے نہیںاور دینی و دنیاوی علم میںنہ صرف خود کامیاب رہے بلکہ اس علمی نور سے اپنے اطراف کے دیہات کو بھی منوّر کیا۔یہ نیک صحبت کا اثر ہی تھا کہ وہ سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات پر پکڑ رکھتے تھے ۔
مولوی لال دین صاحب سیاسی اور سماجی طور پر بھی سرگرم تھے اور کئی سالوں تک ضلع نوشہرہ کی کانگریس پارٹی کے ڈیلی گیٹ اور اپنے بلاک کے نائب صدر رہے۔ قلعہ درہال کی پنچایت کے چیئرمین اور عدالتی کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں انہوں نے سرحدی علاقوں کے لوگوں کی حوصلہ مندی اور بحالی میں فعال کردار ادا کیا جو جنگ کی وجہ سے پریشان تھے۔وہ جگر مرادآبادی کے اس شعر کے قائل تھے:
طولِ غمِ حیات سے گھبرانہ اے جگر ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو
مادری زبان سے محبت
مولوی صاحب ہمیشہ گوجری زبان میں بات کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کی حالت زار کے حوالے سے اُردو اخبارات کے ایڈیٹر کو کئی خطوط لکھے ۔ مولوی صاحب پنجابی اور گوجری زبانوں کے شاعر تھے اور اردو میں بھی بعض اوقات شعر لکھتے تھے۔
ان کی بعض تحریرپیغام سے بھری ہوتی تھیں اور وہ بے وجہ تکرار سے اپنے آپ کو دور رکھتے تھے لیکن اپنے دل کی باتیں کاغذ کی پرتوں کے حوالے کرتے رہتے تھے۔ایک جگہ وہ رقم طراز ہیں:
’’تعجب یہ ہے کہ وہ اسلام جو بندہ، مولا، سیاہ و سفید،امیر اور غریب،حاکم اور محکوم کے امتیاز کو مٹانے کے لئے آیا ہے آج اُسی کے فرزندوں کا یہ حال ہے کہ وہ تلوار خود ہی اپنی صفوں کو مُنتشر اور ان کی وحدت کو پاش پاش کر رہے ہیں اور اُنھیںاس پر ندامت کے بجائے فخر ہے ۔‘‘
تیرکھا کے جو دیکھا کمین گاہ کی طرف تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
اپنی باتوں کو عوام الناس تک پہنچانے کیلئے وہ ہر ذریعہ تک رسائی کرتے تھے شاید یہ ہی وجہ تھی کہ مولوی صاحب اس زمانے کے نوجوانوں میں مشہورومعروف تھے اور گوجری زبان کوعام کرنے میں سرگرم عمل رہتے تھے ۔ انہوں نے آل انڈیاریڈیو جموںکے گوجری پروگرام میںجو ان دنوں کافی مقبول تھا بلکہ گھر گھر کی آواز تھا، دیہی علاقوں کے لوگوں کے روز مرہ کے مسائل کے حل کے لیے بہت سے خطوط بھی لکھے تھے اور خود بھی پروگرام میں شامل ہوکرعوامی مسائل کو اجاگر کرتے رہتے تھے۔عوام بالخصوص ضرورت مندوں کی مدد و نصرت کا جذبہ ان کے دل و دماغ میں اس قدر گہرا تھا کہ وہ ہمیشہ دوسروں کی خوشنودی کے لیے ہر قسم کی مشکلات یا حالات کا سامنا کرنا پسند کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انسانیت کی خدمت کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ وہ اپنے لوگوں میں منفردمقام وشہرت رکھتے تھے اور اب بھی انہیں ‘مولوی صاحب کمیلہ والیـ ‘ــ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔مولوی لال دین صاحب ایک اعلیٰ پایہ کے اصلاحکار تھے اور زندگی کے شب و روز کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا دھیان رکھتے تھے اور شیریں زباں سے سمجھاتے بھی رہتے تھے۔انداز ایسا ہوتا تھا کہ سننے والے کوذرہ بھر بھی ناگوار نہیں گزرتا تھا۔خوش خلقی ان کا اشعار تھا اور مسکراہٹ لبوں کی زینت تھی۔ایک دفعہ راقم ان کے گھر گیا ہوا تھا اور جب کھانا کھانے لگے توں راقم نے ایک ہاتھ آگے بڑھا کر دھونا چاہا لیکن مولوی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’ جب بھی کھانے کیلئے ہاتھ دھونے لگو تو دونو ہاتھ دھویا کروجو صیحح طریقہ ہے۔‘‘ تیس سال کے بعد آج بھی جب بھی میں ہاتھ دھونے لگتا ہوں توں مولوی صاحب کی وہ بات مجھے یاد آجاتی ہے اور ایسا احساس ہوتا ہے کہ وہ قریب ہی کھڑے دیکھ رہے ہیں۔اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا کرے۔
خاندان
مولوی صاحب کے پسماندگان میں سات بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔سب پڑھے لکھے ہیں۔ بڑا بیٹا عبدالقیوم پہلے محکمہ تعلیم میں تھا۔ اور اس وقت بطور ایڈمنسٹریٹر اوقاف، نوشہرہ کام کر رہے ہیں۔ دوسرا بیٹا، چوہدری رشید اعظم انقلابی سینئر سول ایڈمنسٹریٹر (JKAS) کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں اور انہوں نے کئی محکمہ جات کی سربراہی کی ہے۔انہوں نے ‘ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن جموں ‘ڈپٹی کمشنر رام بن’ اور ڈائرکٹر امور صحارفین کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ منشی محمد امین فوج میں تھے۔ شبیر حسین محکمہ تعلیم میں اور چھوٹے محمد اقبال محکمہ جنگلات میں کام کرتے تھے۔
مولوی صاحب کے رفقہ میں ماسٹر بیلی رام سابقہ کابینہ وزیر، سردار سجن سنگھ، حاجی غلام محمد نڈیالہ بگلا، عالم دین جٹ آف نڈیالہ، حاجی فیروز الدین، مولوی عبدالغنی لمبیڑی، مرچولا کا عمر دین، اندروٹ کے حسین صاحب شامل تھے۔ ان کے سائیں لال دین مرگاں والے اور پٹھان تیر (مہینڈر) کے سائیں فقر دین سے قریبی تعلق ہے۔ آپ کا میاں نظام الدین لارویؒ، میاں بشیر احمد لارویؒ کے علاوہ چوہدری گلزار احمد کھٹانہ اور چوہدری محمد اسلم صاحب سے بھی گہرادلی رشتہ تھا۔
مولوی صاحب ایک دہائی تک جامع مسجد نوشہرہ کے امام رہے۔ بڑھاپے میں ان کے قریبی لوگ ان سے بے حد محبت کرتے تھے اور وہ ان کی بہت عزت و احترام کرتے تھے اور اپنے معاملات پر ان سے فیصلہ کرواتے تھے۔ انہیں شب و روز کی ڈائری لکھنے شوق تھا اور ان کی ڈائری کے اوراق کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چلتی پھرتی تاریخ تھے۔اپنے علاقے کے نو زاید بچوں کی تاریخ پیدائش ،اموات کا اندراج ، علاقاجات میں پنچایت و جرگوں کی فیصلو ں کا اندراج ،سماجی اور سیاسی شخصیات سے ملاقات اور ابھارے گئے معاملات ،سیاسی زیر و زبر،حکمرانوں کے کارنامہ ہائے ،شاعروں اور ادیبوں کے تذکرے ،اپنی قرب و جوار کے علاقاجات کے مسائل کی ترجیحات وغیرہ کا اندراج قابل ستائش ہے۔آپ پرہیزگاراورعبادت گارشخصیت کے مالک تھے۔اس سلسلے میںایک اہم واقعہ کاتذکرہ ضروری سمجھتا ہوں ۔ایک مرتبہ مولوی لال دین صاحب نے 14 مہینے لگاتارروزے رکھے اوران چودہ مہینوں میں صرف دودنوں یعنی عیدالفطراورعیدالضحیٰ کے دنوں کاہی ناگہ تھا۔یہ عرصہ آپ نے رضائے الٰہی کیلئے تندہی سے عبادت میںگزارا۔ مولوی لال الدین صاحب نے 2002 ء میں اندروٹھ کے نور حسن کے ساتھ حج کیاتھا۔
کہاں جاؤں کسے دُکھڑا سناؤں
یہ زخم دل کسے جا کر دکھاؤں
شفا کا نسخہ کس حاذق سے لاؤں
تیرا در چھوڑمیں کس در پہ جاؤں
مولوی لال دین صاحب 11 ستمبر 2008 ء بروز جمعرات 25 رمضان المبارک شب قدر کی رات 9 بجے اپنے آبائی گائوں میں جمعرات کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی نمازجنازہ جمعتہ الوداع کے دن ضلع راجوری کے بڈیترگائوں میں اداکی گئی جس میں کثیرتعدادمیں لوگوں نے شرکت کی۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ آمین
٭٭٭٭٭