محمد یاسین ماگرے(ڈوڈہ، جموں)
شاید ہی کوئی ہوگا جو تعلیم کی اہمیت سے واقف نہ ہو۔ گاؤں، دیہات اور قصبات میں بھی بچے، بچیاں اسکول، جا رہے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے اداروں میں بچوں کا اندراج سو فیصد ہو تا ہے۔ لیکن ان میں سے ایک تہائی بچے ہی ہائی اسکول تک پہنچ پاتا ہیں۔ اعلیٰ تعلیم تک پہنچنے والے بچوں کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی وجہ سرکاری اسکولوں کا ناقابلہ فہم جہاں طلباء وہاں اساتزہ نہیں جہاں اساتزہ وہاں اسکول کی چھت نہیں۔ تعلیم کے لئے وقت استاداورچاہت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ تینوں چیزیں میسر ہونی چاہی۔ مگر افسوس کہ اس جدید دور میں بھی ان تینوں چیزین کا فقدان ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت جوں کی توں ہے۔ یہ حال جموں کشمیر کے کسی ایک ضلع کا نہیں ہے منجملہ ہے۔ اس حوالے سے ڈی ڈی سی کاہرہ مہراج دین ملک بتاتے ہیں کہ”جموں وکشمیر کی آبادی زیادہ تر پہاڑیوں پر آبادہے۔ مگر یہاں کے ہر ضلع میں پائی جانے والے سرکاری اسکول کا یہی حال ہے۔ ضلع ڈوڈہ کے کئی اسکول ایسے ہیں جن کا ہونا نہ ہونے کے برابرا ہے۔مگر سرکار گہری نید میں سوئی ہوئی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ اس کمپٹیشن کے دور میں بھی ضلع ڈوڈہ کے طالب علم پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ان بچوں کو اس جدید دور کی تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے جس تعلیم سے یہ آگے اپنا نام روشن کر سکتے تھے۔ آج کا یہ دور کمپیوٹر کا دور ہے یہاں کے بچوں کو اگر کوئی انگلش میں بات کرتا ہے تو یہ بچے اس بات کا جواب نہیں دے پاتے ہیں۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاص کر کے پہاڑی علاقوں کے تعلیم کو بہتری کی طرف لانا ہوگا تاکہ یہاں کے بچے بھی اس جدید دور کا مقابلہ کر سکے گئے۔ایک اور سماجی کارکن فاطمہ بیگم کہتی ہیں کہ”افسوس کی بات ہے کہ آج تعلیم کا بنیادی مقصد پیسے کمانا سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں آج معاشرتی سطح پر جو عدم اطمینان اور انتشار کی کیفیت نظر آتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ ایسے افراد کی اکثریت ہی ہے جن کے نزدیک مادی ترقی ہی زندگی کی واحد حقیقت ہے۔“ انہوں نے کہا کہ تحصیل کاہرہ کے اندر کئی اسکول ایسے ہیں جن کے اندر استازہ کی بہ حد کمی ہے۔ گورمنٹ ہائی سکنڈری سکول ٹانٹہ،جوضلع ہیڈکوٹر سے تقربا چالیس کلومیٹر کی دوری پرواقع ہے، وہاں بہترین عمارت بنی ہوئی ہے،بچوں کی خاصی تعداد بھی ہے، مگر افسوس ہائی سکنڈری ہوتے ہوئے مڈل سکول کے استادبھی پورے نہیں ہیں۔ جس سے ہمارا تعلیمی نظام بجائے بہتری کے،بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ محکمہ تعلیم ان اسکولوں سے مذاق کر رہاہے۔ ایک اور سکول جو کہ ایک پہاڑی علاقہ کے درمیان ہے جہاں مڈل اسکول ہے مگر وہاں بچوں کی بات تو دور، جانورں کو بٹھانے سے بھی لوگ ڈرتئے ہیں۔ آپ اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہاں کے لوگ پچھرے کیوں ہیں؟ اب آپ ہی بتائیے کہ پرائیویٹ اداروں کی بھاری فیس غریب گھرانے کے بچے کہاں سے ادا کریں گے؟اب جب آخری آپشن ان کے پاس بچتا ہے تو یہی کہ لڑکیاں بارہ جماعت کے بعد تعلیم چھورنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اس طرح ان کاآگے بڑھنے کا خواب خواب ہی رہتا ہے۔ سوچیے اب تک جو لڑکیاں صرف اس وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں کہ کسی سرکاری سکول میں ویسی فسیلٹی نہیں ہے اگر ہے تو وہ پراؤیٹ اسکول ہے مگر افسوس کہ ان کی بھاری فیس برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟طالبات کے ڈوبتے مستقبل کو بچانیے کے لئے اسکولوں کی حالات بہتر کرنی ہوگی۔ کئی سکول ایسے ہے جن کے چھت نہیں ہے لیکن طالبات کے لیے نقصان کے ازالے کے لیے صوبائی و ضلع انتظامیہ ذمہ دار ہے۔وہ اپنا حق ادا کریں۔ انہیں چاہئے کہ جلد از جلد تعلیمی ایمرجنسی کا قبلہ درست کریں تا کہ تبدیلی کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچایا جا سکے۔
اس حوالے سے سماجی کارکن رفاقت حسن نے تعلیم پر روشنی ڈالتے ہوئی کہا کہ تعلیم انسان کے علم، ہنر، شخصیت اور رویہ کو نکھارتی ہے مگر افسوس تحصیل کاہرہ زون بھٹیاس پچھلے کئی سالوں سے سرکاری اسکولوں خستہ حالی کا شکار ہے۔ دو سے تین سکول ایک ہی پنچایت میں ایسے ہے کہ انسان کو رونا آتا ہے ایک عمارت درمن میں اور دوسری عمارت وانی پورہ اور کھٹل کے پنچایت ٹانٹہ تین جگہ پر یہی بری حالت اسکولوں کی ہے۔ ہمارا انتظامہ سے سوال ہے کہ ہمارے بچوں کے ساتھ یہ نا انصافی کیوں؟ یہاں پر کوئی بھی ایجوکیشن ڈولپمنٹ نہیں ہوئی۔ لہذا میری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران سے گزارش ہے کہ ان اسکول کی عمارت کے اوپر فوری طور نظر ثانی کریں۔یہ غریب عوام کے بچوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے جبکہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہر سال اس کا پیسہ جمع ہوتا ہے۔پر یہاں پر کوئی بھی کام نہیں ہو پا رہا ہے کم سے کم اپنے دور اقتدار کے اندر ان بلڈنگ کا کام شروع کروایا جائے تاکہ یہاں کے بچوں کا مستقبل سور سکے اور یہاں کے بچے بھی اپنا نام روشن کر سکیں۔اس سلسلے میں جب ہم نے ایک اردو سکالر زاکر ملک سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جدید اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا کرنے، یونیورسٹی، کالج، انٹر کالج اور عصری علوم کے اداروں کے کھولنے میں لگانی چاہیے، شرعی حدود وقیود کے ساتھ لڑکیوں کے لیے بھی تعلیمی ادارے کھولنے چاہیے اور ان کو آگے بڑھا نا چاہیے۔ اس لیے کہ ایک مرد پڑھتا ہے تو فرد پڑھتا ہے، لیکن ایک لڑکی پڑھتی ہے تو گھر پڑھتا ہے، خاندان کی تعلیم کی بنیاد پڑتی ہے، اور آنے والی نسل کے تعلیم یافتہ ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، ہمیں ذریعہ تعلیم کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے، انگلش میں بچے کی مہارت اور چیز ہے اور ذریعہ تعلیم اسے بنانا بالکل دوسری چیز، ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ابتدائی تعلیم کے حصول میں زیادہ معاون اور موثر ہے۔ لیکن ہمارا رجحان انگلش میڈیم اسکولوں اور کنونٹوں کی طرف بڑھا ہوا ہے، ہمیں ہر سطح پراعلیٰ اخلاقی اقدار بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بغیر انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور بھلائی کا تصور نا پید ہوتا ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوں گے تو ڈاکٹر مریض کو آپریشن ٹیبل پر لے جانے کے بعد دوسرے مرض کے انکشاف پر فیس بڑھانے کی بات نہیں کرے گا، انجینئر نقشہ بناتے وقت پڑوسی کے گھر کی ہوا، روشنی وغیرہ کے لیے فکر مند ہو کر نقشہ بنائے گا۔اس لئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نہ صرف عمارت کو بہتر بنایں بلکہ تعلیم کے معیار کو بھی اعلی بنایں۔ (چرخہ فیچرس)