تحریر:-قیصر محمود عراقی
ہمارا مسلم معاشرہ بے شمار اقتصادی ، سماجی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہے ، جس کے سبب خاندانوں کی شکست و ریخت کا عمل جا ری ہے ۔ موجودہ دور میں بیٹی کی شادی کر نا ایک اہم مسئلہ ہے ۔ شادیوں کے بندھن میں بے شمار رکاوٹیں اور مشکلات ہیں ، جس کے سبب بیٹیوں کے والدین پریشانیوں اور اضطراب کا شکار ہیں ۔
اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا ہے لیکن موجودہ دور میں بیٹی معاشرے کے لئے زحمت بن گئی ہے ۔ شادی کے مو قع میں لڑکے والوں کی طرف سے بے شمار مطالبات ہو تے ہیں ، جس کی وجہہ سے غریب خاندانوں کے لئے رشتہ تلا ش کر نا اور پھر شادی کے انتظامات کر کے بیٹی کو رخصت کر نا نہایت مشکل ہو گیا ہے ۔ رشتہ یعنی شادی طے کر تے وقت لڑکے اور لڑکی کو کن با توں کا خیال رکھنا چاہئے جس سے ان کی آئندہ زندگی پُر سکون اور با ہمی تعاون سے گذرے ۔ ایسی زندگی بسر کر نے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے در گزر سے کام لیں ۔ آج معاشرے میں لڑکی اور لڑکے میں قوتِ بر داشت نہ ہو نے کی وجہہ سے شادی کے بندھن میں بندھنے کے چند ما ہ بعد طلاق کی نو بت آجا تی ہے ، اس لئے لڑکی اور لڑکے میں با ہمی رضا مندی اور انڈر اسٹینڈنگ بہت ضروری ہے ، جہیز جیسے مطالبات کے سبب کئی خاندان بیٹیوں کی شادی نہیں کر پا تے جس کے سبب بیٹیوں کی عمر یں زیادہ ہو جا تی ہیں ، والدین اسی پریشانی میں تنائو اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہو جا تے ہیں ۔
مسلمانوں کی خاندانی نظام میں بے شمار مشکلات و مسائل ہیں ، جس کے سبب شادی کے بعد بھی مشترکہ خاندانی نظام کی وجہہ سے لڑکے اور لڑکی کے درمیان اختلافات کے سبب معاشرے میں بے شمار اُلجھنیں پیدا ہو جا تی ہیں ۔ شادی کے بعد بیٹی کے والدین کی بے جا مداخلات اور بیٹی کو صحیح غلط مشورے دینے سے نو بت طلاق تک پہنچ جا تی ہے ، لہذا معاشرتی تقا ضا ہے کہ اگر باہمی مشوروں سے زندگی گزار نے کا مو قع دینا چاہئے ، جس کے سبب کا میاب زندگی ممکن ہو سکتی ہے اور والدین کی طرف سے بے جا مداخلت سے پر ہیز کر نے سے خوشحال گھرانہ پرورش پا سکتا ہے ۔
ان دنوں ہمارے مسلم معاشرے میں جہیز کی لعنت ، سادہ طریقے سے نکاح اور شادی کا رواج ختم ہو تا جا رہا ہے ، والدین قرضہ لے کر اپنی عزت اور شان و شوکت کا بھرم قائم رکھنے کے لئے بیٹیوں کی شادیاں کر کے خود ساری زندگی کے لئے مقروض بن جا تے ہیں اور اپنے معاشی مسائل میں خود اضافہ کر تے ہیں ۔ اسلام مسلمانوں کے لئے ضابطہ حیات ہے ، اگر ہمارا معاشرہ شادی کے بندھن کو سادگی اور اسلامی طریقے سے انجام دے تو بے شمار مشکلات اور ذہنی پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے ۔
ان مشاہدات کی روشنی میں تلخ تجر بات کی بنا پر ہندوستان میں لو گوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر نے کے لئے کچھ فلاحی تنظیموں نے اجتما عی شادیوں کے تصور کو پروان چڑھا نے اور بیٹیوں کے والدین سے رابطہ کے بعد مستحق ، یتیم اور غریب خاندانوں کی شادیوں کے پروگرامز ہر سال منعقد کر تے ہیں ۔ یہ فلاحی تنظیمیں سادگی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حضور پاک ﷺ کی سنت کو تازہ کر رہی ہیں ، ملک میں بے شمار فلاحی تنظیمیں ہیں جو اجتماعی شادیوں کو پروان چڑھا نے کے لئے معاشرے میں اپنا کر دار سر انجام دے رہی ہیں جس سے جہیز کی لعنت کا خاتمہ ، شادی کے بندھن میں آسانیاں ، خاندانوں کی مشکلات میں کمی اور بہتر عائلی زندگی کی تصورات کو اجاگر کر نے میں مدد ملی ہے ۔ یہ فلاحی تنظیمیں مخیر حضرات اور دردِ دل رکھنے والے افراد سے فنڈ ز جمع کر کے سارے انتظامات خود کر تی ہیں اور اجتماعی شادیوں کے ذریعے غریب ، مستحق اور استطاعت نہ رکھنے والے والدین کا سہارا بنتی ہیں ۔ یہ فلاحی تنظیمیں ضروری سامان ، مثلاً برتن، پنکھے ، بیڈ ، استری ،بستر اور کپڑے وغیرہ اور روز مرہ کی اشیا مہیا کر نے کے علاوہ بارات کے لئے کھانے کا بندوبست بھی کر تی ہیں ۔ ایسی ہی ایک فلاحی تنظیم ہمارے شہر کو لکاتا کے ا طراف کو لوٹولہ میں ایک اور ایک کا نکی نا رہ میں ہے جو عرصہ دراز سے بلا تفریق برادری اجتماعی شادیوں کے پروگرام کو تسلسل سے جا ری رکھے ہو ئے ہیں ۔
قارئین محترم ! غریب بچیوں کی شادی کر نا بلا شبہہ ایک بڑی خدمت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی انسانی خدمات کی وجہہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے راضی ہو تے ہیں ۔ کیونکہ جو بھی شخص کسی کو خوشی دیتا ہے ، کسی کی خدمت کر تا ہے یا حسن سلوک کر تا ہے وہ خود جانتا ہے یا اللہ کی ذات کو اس کا علم ہو تا ہے ۔ اپنے لئے تو ہر کوئی کر تا ہے دوسروں کے لئے اچھا کر نا ہی اہم کا م ہے ، لہذا مخیر حضرات علما کرام، دانشوران اور امیر وقت کو چاہئے کہ مل جل کر مستحق بچیوں کی شادی کا انتظام کریں ۔ میں ان امیروں سے استدعا کر تا ہو ں جو لا کھوں روپئے اپنے بچیوں کی شادی پر بے دریغ خرچ کر دیتے ہیں ، اس میں صرف شادی کے مو قع پر دلہن کے کپڑوں کی قیمت لا کھوں روپئے ہو تی ہے ، اسی طرح شادی کے کھا نے پر لا کھوں روپئے خرچ کر کے اپنی امارات کا اظہار کر تے ہیں ، شادی تو دور کی بات منگنی کے مو قع پر کھانا، تحفہ تحائف ، پھر نکاح اور بارات کے بعد ولیمہ کا کھانا ، گویا ایک مقابلہ جا ری و ساری ہے ، مقصد ایک دوسرے سے سبقت لے جا نا ہے ۔ اور اسی بھاگ دوڑ میں وہ غریب بچیوں کو بھول جا تے ہیں ۔ گویا ایک طرف شادی پر کروڑوں روپیہ لٹا دیا جا تا ہے اور دوسری طرف قرض لے کر بیٹی رخصت کی جا تی ہے ۔ ہو نا تو یہ چاہئے تھا کہ مخیر حضرات جو اپنی بیٹی کی شادی میں پانچ سے دس لاکھ روپئے خرچ کر تے ہیں ، اتنی رقم میں وہ چاہیں تو اپنی بیٹی کے ساتھ ساتھ دو اور غریب بچیوں کی شادی کروا سکتے ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہو تا ۔ ان حالات میں اجتماعی شادیاں معاشرتی زندگی کے لئے مفید اقدام ہے ، جو کہ ملک کے مختلف شہروں میں مختلف تنظیمیں انجام دے رہی ہیں ۔
آخر میں صرف عرض کر تا ہوں کہ اس وقت دنیا میں اسلامی ملکوں کی تعداد چھپن سے بھی زائد ہیں ، ان میں سے پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کو نکال کر بقیہ کسی اسلامی ممالک میں جہیز کا تصور نہیں ۔ اسلام کی ابتدائی دور میں جو نکاح ہو ئے وہ سادہ تھے ، نہ جہیز ، نہ مہندی ، نہ بری اور آج جتنے مسائل ہیں وہ سب سنت نبوی ﷺ سے دوری کے باعث ہیں ، اس لئے ابھی بھی وقت ہے ، ہم چاہیں تو شادی بیاہ پر ہندوانہ رسوم کا خاتمہ کر سکتے ہیں کیونکہ اسی نے معاشرے میں مسائل پیدا کر رکھے ہیں ۔
قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ، کمرہٹی، کولکاتا، ۵۸