وادی کشمیر میں طبی سہولیات کی فراہمی کے نام پر دن دہاڑے مریضوں اور اُن کے تیمارداروں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔گزشتہ ایک دہائی کے دوران وادی کے شمال و جنوب میں طبی شفاخانوں کی بھر مار قائم ہوگئی ہے ۔ سرکاری شفاخانوں میں ناقص طبی سہولیات اور طوالت سے بچنے کیلئے مختلف امراض میں مبتلا مریض نجی شفاخانوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں تاکہ بھر وقت اُن کو مناسب علاج و معالجہ فراہم ہوسکے۔ ان اداروں میں وہی طبی ماہرین دستیاب ہیں جو سرکاری ہسپتالوں میں لکا چھپی کا کھیل کھیلتے ہیں اور ایک طرف سرکاری خزانہ سے ماہانہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں تو دوسری طرف پرائیویٹ شفاخانوں اور اداروں میں مریضوں کا علاج کرکے اُن سے طبی فیس کے نام پر موٹی موٹی رقمیں وصول کرتے ہیں۔ یہ کلچر وادی بھر میں گزشتہ ایک دہائی سے انتہائی زور پکڑ چکاہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں جہاں حکومت نے مختلف سہولیات کو معمولی رقم ادا کرنے کیساتھ مشروط کیا ہے تاہم بڑے بڑے تشخیصی ٹیسٹ کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو مہینوں کا انتظار بھی کم پڑجاتا ہے۔ بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مریض کا چالیسواں بھی ہوچکا ہوتا ہے تب کہیں اُس کا نمبر سرکاری ہسپتال میں آپاتا ہے۔ یہ صورتحال کسی ایک سرکاری ہسپتال تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جموں کشمیر کے کونے کونے میں یہ صورتحال عیاں و بیاں ہے جس کے نتیجہ میں مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی صورتحال کا فائدہ اُٹھاکر یہاں کے بعض مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر نے طبی سہولیات کی فراہمی کے نام پر متعدد پرائیویٹ طبی شفاخانے قائم کئے ہیں جہاں وہ مجبور مریضوں کی کھال کھینچ لیتے ہیں۔ان شفاخانوں میں معمولی نوعیت کے تشخیصی ٹیسٹ کیلئے مریض کو ہزاروں کی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایکس رے، ایم آر آئی، سی ٹی اسکین، یو ایس جی، میمو گرافی، انڈوس کوپی وغیرہ جیسے ٹیسٹوں کیلئے مریض کو پرائیویٹ شفاخانوں میں جانے کے علاوہ اُور کوئی چارہ ہی نہیں۔ مریض کی مالی حالات اگر کمزور ہو تو اُسے یا تو سرکاری ہسپتال کے بیڈ پر تڑپ تڑپ کے اپنی جان دینی پڑتی ہے یا اپنی باری کا انتظارکرنے کاجام نوش کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری شفاخانوں میں موجود اس عدم توازن کیلئے آج تک اگر مریضوں اور عام لوگوں نے حکام بالا کو ہزاروں اپیلیں کرتے ہوئے اس کا سدباب کرنے کی تاکید کی تاہم زمینی صورتحال میں آج تک کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل پائی۔ ایک دہائی قبل مریض اپنا بھروقت علاج یقینی بنانے کیلئے چند سو روپے فیس ادا کرکے ایک بادشاہ کی طرح پرائیویٹ شفاخانے میں جاکر ڈاکٹر کیساتھ صلاح و مشورہ کرپاتا تھا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ جتنی بھیڑ جموں کشمیر کے سرکاری ہسپتالوں میں رہتی ہے ، اُس سے کئی گنا زیادہ پرائیویٹ شفاخانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ آج کی بات کی جائے تو پرائیویٹ شفاخانوں میں بھی ایک معروف معالج کا نمبر حاصل کرنے کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے جس دوران یا تو مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یا پھر اُس کی صحت پر مزیدمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جموں کشمیر کی موجودہ انتظامیہ جس نے گزشتہ تین برسوں کے دوران مختلف شعبوں میں ترقی کے لحاظ سے نمایاں تبدیلیاں لائیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ شعبہ صحت پر بھی اپنی نظر عنایت کرے اور یہاں کے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو فراہم کی جارہی سہولیات میں مزید اضافہ کرے تاکہ یہاں وارد ہورہے بیماروں کو مجبوراً پرائیویٹ کلنکوں اور شفاخانوں کا رُخ نہ کرنا پڑے۔